الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: حدود و تعزیرات سے متعلق احکام و مسائل
22. باب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ إِذَا اسْتُكْرِهَتْ عَلَى الزِّنَا
22. باب: زنا پر مجبور کی گئی عورت کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1453
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ , عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ , عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: " اسْتُكْرِهَتِ امْرَأَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَدَرَأَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدَّ , وَأَقَامَهُ عَلَى الَّذِي أَصَابَهَا , وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ جَعَلَ لَهَا مَهْرًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ , وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ , قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا , يَقُولُ: عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ , وَلَا أَدْرَكَهُ , يُقَالُ: إِنَّهُ وُلِدَ بَعْدَ مَوْتِ أَبِيهِ بِأَشْهُرٍ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , أَنْ لَيْسَ عَلَى الْمُسْتَكْرَهَةِ حَدٌّ.
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حد سے بری کر دیا اور زانی پر حد جاری کی، راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ آپ نے اسے کچھ مہر بھی دلایا ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اس کی اسناد متصل نہیں ہے،
۲- یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے،
۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا: عبدالجبار بن وائل بن حجر کا سماع ان کے باپ سے ثابت نہیں ہے، انہوں نے اپنے والد کا زمانہ نہیں پایا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کی موت کے کچھ مہینے بعد پیدا ہوئے،
۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جس سے جبراً زنا کیا گیا ہو اس پر حد واجب نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1453]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحدود 30 (2598) (ضعیف) (نہ تو ”حجاج بن ارطاة“ نے ”عبدالجبار“ سے سنا ہے، نہ ہی ”عبدالجبار“ نے اپنے باپ سے سنا ہے، یعنی سند میں دو جگہ انقطاع ہے، لیکن یہ مسئلہ اگلی حدیث سے ثابت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (3571)

حدیث نمبر: 1454
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , عَنْ إِسْرَائِيلَ , حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ , عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْكِنْدِيِّ , عَنْ أَبِيهِ " أَنَّ امْرَأَةً خَرَجَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُرِيدُ الصَّلَاةَ , فَتَلَقَّاهَا رَجُلٌ فَتَجَلَّلَهَا , فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا , فَصَاحَتْ , فَانْطَلَقَ , وَمَرَّ عَلَيْهَا رَجُلٌ , فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا , وَمَرَّتْ بِعِصَابَةٍ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ , فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا , فَانْطَلَقُوا , فَأَخَذُوا الرَّجُلَ الَّذِي ظَنَّتْ أَنَّهُ وَقَعَ عَلَيْهَا وَأَتَوْهَا , فَقَالَتْ: نَعَمْ هُوَ هَذَا , فَأَتَوْا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا أَمَرَ بِهِ لِيُرْجَمَ , قَامَ صَاحِبُهَا الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنَا صَاحِبُهَا , فَقَالَ لَهَا: اذْهَبِي فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكِ وَقَالَ لِلرَّجُلِ قَوْلًا حَسَنًا , وَقَالَ لِلرَّجُلِ الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا: ارْجُمُوهُ , وَقَالَ: لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَقُبِلَ مِنْهُمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ , وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , سَمِعَ مِنْ أَبِيهِ , وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ , وَعَبْدُ الْجَبَّارِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
وائل بن حجر کندی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی (یعنی اس سے زبردستی زنا کیا)، وہ عورت چیخنے لگی اور وہ چلا گیا، پھر اس کے پاس سے ایک (دوسرا) آدمی گزرا تو یہ عورت بولی: اس (دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے ۱؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تو یہ عورت بولی: اس آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے، (یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جا کر انہوں نے اس آدمی کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے، وہ بولی: ہاں، وہ یہی ہے، پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، چنانچہ جب آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، تو اس عورت کے ساتھ زنا کرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کے ساتھ زنا کرنے والا میں ہوں، پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا: تو جا اللہ نے تیری بخشش کر دی ہے ۲؎ اور آپ نے اس آدمی کو (جو قصوروار نہیں تھا) اچھی بات کہی ۳؎ اور جس آدمی نے زنا کیا تھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا: اسے رجم کرو، آپ نے یہ بھی فرمایا: اس (زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اس طرح توبہ کر لیں تو ان سب کی توبہ قبول ہو جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- علقمہ بن وائل بن حجر کا سماع ان کے والد سے ثابت ہے، یہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں اور عبدالجبار کا سماع ان کے والد سے ثابت نہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1454]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحدود 7 (4379)، (تحفة الأشراف: 1177)، و مسند احمد (6/399) (حسن) (اس میں رجم کی بات صحیح نہیں ہے، راجح یہی ہے کہ رجم نہیں کیا گیا، دیکھئے: الصحیحہ رقم 900)»

قال الشيخ الألباني: حسن - دون قوله " ارجموه " والأرجح أنه لم يرجم -، المشكاة (3572) ، الصحيحة (900)

23. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَقَعُ عَلَى الْبَهِيمَةِ
23. باب: جانور سے وطی (جماع) کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1455
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَجَدْتُمُوهُ وَقَعَ عَلَى بَهِيمَةٍ فَاقْتُلُوهُ وَاقْتُلُوا الْبَهِيمَةَ " , فَقِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا شَأْنُ الْبَهِيمَةِ؟ قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ شَيْئًا , وَلَكِنْ: " أَرَى رَسُولَ اللَّهِ كَرِهَ أَنْ يُؤْكَلَ مِنْ لَحْمِهَا , أَوْ يُنْتَفَعَ بِهَا , وَقَدْ عُمِلَ بِهَا ذَلِكَ الْعَمَلُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو جانور کے ساتھ وطی (جماع) کرتے ہوئے پاؤ تو اسے قتل کر دو اور (ساتھ میں) جانور کو بھی قتل کر دو۔ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا گیا: جانور کو قتل کرنے کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ نہیں سنا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ جس جانور کے ساتھ یہ برا فعل کیا گیا ہو، اس کا گوشت کھانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند سمجھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمرو بن ابی عمرو کی حدیث کو جسے وہ بطریق: «عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کرتے ہیں۔ ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1455]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحدود 29 (3062)، سنن ابن ماجہ/الحدود 13 (4464)، (تحفة الأشراف: 6176)، و مسند احمد (1/269، 300 (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (2564)

حدیث نمبر: 1455M
وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي رُزَيْنٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ أَتَى بَهِيمَةً فَلَا حَدَّ عَلَيْهِ " , حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
‏‏‏‏ اور سفیان ثوری نے بطریق: «عاصم عن أبي رزين عن ابن عباس» (موقوفاً عليه) روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: جانور سے «وطی» (جماع) کرنے والے پر کوئی حد نہیں ہے۔ ہم سے اس حدیث کو محمد بن بشار نے بسند «عبدالرحمٰن بن مهدي حدثنا سفيان الثوري» بیان کیا اور یہ ۱؎ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے ۲؎، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1455M]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ مالمؤلف و انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 6454) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (2564)

24. باب مَا جَاءَ فِي حَدِّ اللُّوطِيِّ
24. باب: اغلام باز کی سزا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1456
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ , فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ , وَالْمَفْعُولَ بِهِ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ جَابِرٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو , فَقَالَ: مَلْعُونٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْقَتْلَ , وَذَكَرَ فِيهِ مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى بَهِيمَةً , وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ , وَلَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , غَيْرَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ , وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ , وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي حَدِّ اللُّوطِيِّ , فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِ الرَّجْمَ أَحْصَنَ أَوْ لَمْ يُحْصِنْ , وَهَذَا قَوْلُ مَالِكٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ , وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ , وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ , وَغَيْرُهُمْ قَالُوا: حَدُّ اللُّوطِيِّ حَدُّ الزَّانِي , وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ , وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ جسے قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول (بدفعلی کرنے اور کرانے والے) دونوں کو قتل کر دو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث بواسطہ ابن عباس رضی الله عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے، محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو عمرو بن ابی عمرو سے روایت کیا ہے، (لیکن اس میں ہے) آپ نے فرمایا: قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرنے والا ملعون ہے، راوی نے اس حدیث میں قتل کا ذکر نہیں کیا، البتہ اس میں یہ بیان ہے کہ جانور سے وطی (جماع) کرنے والا ملعون ہے، اور یہ حدیث بطریق: «عاصم بن عمر عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی گئی ہے۔ (اس میں ہے کہ) آپ نے فرمایا: فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو،
۲- اس حدیث کی سند میں کلام ہے، ہم نہیں جانتے کہ اسے سہیل بن ابی صالح سے عاصم بن عمر العمری کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہے اور عاصم بن عمر کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،
۳- اس باب میں جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اغلام بازی (بدفعلی) کرنے والے کی حد کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں: بدفعلی کرنے والا شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس کی سزا رجم ہے، مالک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۵- فقہاء تابعین میں سے بعض اہل علم نے جن میں حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطا بن ابی رباح وغیرہ شامل ہیں کہتے ہیں: بدفعلی کرنے والے کی سزا زانی کی سزا کی طرح ہے، ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1456]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحدود 29 (4462)، سنن ابن ماجہ/الحدود 13 (2561) (تحفة الأشراف: 6176)، و مسند احمد (1/269، 300) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3561)

حدیث نمبر: 1457
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمَكِّيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلٍ , أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي عَمَلُ قَوْمِ لُوطٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , عَنْ جَابِرٍ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اور ہم اسے صرف اسی سند «عن عبد الله بن محمد بن عقيل بن أبي طالب عن جابر» سے ہی جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1457]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحدود 12 (2563)، (تحفة الأشراف: 2367) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2563)

25. باب مَا جَاءَ فِي الْمُرْتَدِّ
25. باب: مرتد (اسلام سے پھر جانے والے) کی سزا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1458
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ , حَدَّثَنَا أَيُّوبُ , عَنْ عِكْرِمَةَ , أَنَّ عَلِيًّا حَرَّقَ قَوْمًا ارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ , فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَقَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَقَتَلْتُهُمْ , لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ " , وَلَمْ أَكُنْ لِأُحَرِّقَهُمْ , لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ " , فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيًّا , فَقَالَ: صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْمُرْتَدِّ , وَاخْتَلَفُوا فِي الْمَرْأَةِ إِذَا ارْتَدَّتْ عَنِ الْإِسْلَامِ , فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: تُقْتَلُ , وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ: تُحْبَسُ , وَلَا تُقْتَلُ , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی الله عنہ نے کچھ ایسے لوگوں کو زندہ جلا دیا جو اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، جب ابن عباس رضی الله عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی ۱؎ تو انہوں نے کہا: اگر (علی رضی الله عنہ کی جگہ) میں ہوتا تو انہیں قتل کرتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو اپنے دین (اسلام) کو بدل ڈالے اسے قتل کرو، اور میں انہیں جلاتا نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ کے عذاب خاص جیسا تم لوگ عذاب نہ دو، پھر اس بات کی خبر علی رضی الله عنہ کو ہوئی تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہما نے سچ کہا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح حسن ہے،
۲- مرتد کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۳- جب عورت اسلام سے مرتد ہو جائے تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے: اسے قتل کیا جائے گا، اوزاعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۴- اور اہل علم کی دوسری جماعت کہتی ہے: اسے قتل نہیں بلکہ قید کیا جائے گا، سفیان ثوری اور ان کے علاوہ بعض اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1458]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 149 (3017)، والمرتدین 2 (6922)، سنن ابی داود/ الحدود 1 (4351)، سنن النسائی/المحاربة 14 (4065)، سنن ابن ماجہ/الحدود 2 (2535) (تحفة الأشراف: 5987)، و مسند احمد (1/282، 283، 323) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2535)

26. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ شَهَرَ السِّلاَحَ
26. باب: مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1459
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَأَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ , عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ , عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ الزُّبَيْرِ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى , حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۱؎۔ اس باب میں ابن عمر، ابن زبیر، ابوہریرہ اور سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1459]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفتن 7 (7071)، صحیح مسلم/الإیمان 42 (100)، سنن ابن ماجہ/الحدود 19 (2577)، (تحفة الأشراف: 042) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2575 - 2577)

27. باب مَا جَاءَ فِي حَدِّ السَّاحِرِ
27. باب: جادوگر کی سزا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1460
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ جُنْدُبٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَدُّ السَّاحِرِ ضَرْبَةٌ بِالسَّيْفِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا , إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ الْمَكِّيُّ , يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ , وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيُّ الْبَصْرِيُّ , قَالَ وَكِيعٌ: هُوَ ثِقَةٌ , وَيُرْوَى عَنْ الْحَسَنِ أَيْضًا , وَالصَّحِيحُ عَنْ جُنْدَبٍ مَوْقُوفٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا يُقْتَلُ السَّاحِرُ إِذَا كَانَ يَعْمَلُ فِي سِحْرِهِ مَا يَبْلُغُ بِهِ الْكُفْرَ , فَإِذَا عَمِلَ عَمَلًا دُونَ الْكُفْرِ , فَلَمْ نَرَ عَلَيْهِ قَتْلًا.
جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جادوگر کی سزا تلوار سے گردن مارنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن سے بھی مروی ہے، اور صحیح یہ ہے کہ جندب سے موقوفاً مروی ہے۔
۲- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،
۳- اسماعیل بن مسلم مکی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، اور اسماعیل بن مسلم جن کی نسبت عبدی اور بصریٰ ہے وکیع نے انہیں ثقہ کہا ہے۔
۴- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم صحابہ اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، مالک بن انس کا یہی قول ہے،
۵- شافعی کہتے ہیں: جب جادوگر کا جادو حد کفر تک پہنچے تو اسے قتل کیا جائے گا اور جب اس کا جادو حد کفر تک نہ پہنچے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا قتل نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1460]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3269) (ضعیف) (سند میں ”اسماعیل بن مسلم“ ضعیف ہیں جیسا کہ مؤلف نے خود صراحت کر سنن الدارمی/ ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1446) ، المشكاة (3551 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (2699) //

28. باب مَا جَاءَ فِي الْغَالِّ مَا يُصْنَعُ بِهِ
28. باب: مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1461
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ , عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ وَجَدْتُمُوهُ غَلَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , فَاحْرِقُوا مَتَاعَهُ " , قَالَ صَالِحٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى مَسْلَمَةَ , وَمَعَهُ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , فَوَجَدَ رَجُلًا قَدْ غَلَّ، فَحَدَّثَ سَالِمٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ , فَأَمَرَ بِهِ فَأُحْرِقَ مَتَاعُهُ، فَوُجِدَ فِي مَتَاعِهِ مُصْحَفٌ , فَقَالَ سَالِمٌ: بِعْ هَذَا وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِهِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ , فَقَالَ: إِنَّمَا رَوَى هَذَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ وَهُوَ: أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ , وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَالِّ , فَلَمْ يَأْمُرْ فِيهِ بِحَرْقِ مَتَاعِهِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اللہ کی راہ میں مال (غنیمت) میں خیانت کرتے ہوئے پاؤ اس کا سامان جلا دو۔ صالح کہتے ہیں: میں مسلمہ کے پاس گیا، ان کے ساتھ سالم بن عبداللہ تھے تو مسلمہ نے ایک ایسے آدمی کو پایا جس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی، چنانچہ سالم نے (ان سے) یہ حدیث بیان کی، تو مسلمہ نے حکم دیا پھر اس (خائن) کا سامان جلا دیا گیا اور اس کے سامان میں ایک مصحف بھی پایا گیا تو سالم نے کہا: اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اسے صالح بن محمد بن زائدہ نے روایت کیا ہے، یہی ابوواقد لیثی ہے، یہ منکرالحدیث ہے،
۳- بخاری کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری احادیث بھی آئی ہیں، آپ نے ان میں اس (خائن) کے سامان جلانے کا حکم نہیں دیا ہے،
۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1461]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 145 (2713)، (تحفة الأشراف: 6763)، سنن الدارمی/السیر 49 (2537) (ضعیف) (سند میں ”صالح بن محمد بن زائدہ“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (468) // عندنا (580 / 2713) ، المشكاة (3633 / التحقيق الثاني) ، تحقيق المختارة (191 - 194) // ضعيف الجامع الصغير (5871) //


Previous    1    2    3    4    5    Next