الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
حدیث نمبر: 41
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: حَنَّتِ الْخَشَبَةُ الَّتِي كَانَ يَقُومُ عِنْدَهَا،"فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهَا، وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا"، فَسَكَنَتْ.
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ تنا جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے، رو پڑا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے، اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو وہ خاموش ہو گیا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 41]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف المسعودي وهو عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 41] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن اصل صحیح ہے، حوالہ گزر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [بخاري 917] ، [مسلم 544]

حدیث نمبر: 42
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ أَبِي طَلْحَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ: يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَيُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَى جِذْعٍ مَنْصُوبٍ فِي الْمَسْجِدِ فَيَخْطُبُ النَّاسَ، فَجَاءَهُ رُومِيٌّ، فَقَالَ: أَلَا أَصْنَعُ لَكَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ وَكَأَنَّكَ قَائِمٌ؟ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا لَهُ دَرَجَتَانِ، وَيَقْعُدُ عَلَى الثَّالِثَةِ، فَلَمَّا قَعَدَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ الْمِنْبَرِ، خَارَ الْجِذْعُ كَخُوَارِ الثَّوْرِ حَتَّى ارْتَجَّ الْمَسْجِدُ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمِنْبَرِ، فَالْتَزَمَهُ وَهُوَ يَخُورُ، فَلَمَّا الْتَزَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَكَنَ، ثُمَّ قَالَ:"أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ لَمْ أَلْتَزِمْهُ، لَمَا زَالَ هَكَذَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِنَ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنی پشت مسجد میں رکھے ایک تنے سے ٹکاتے تھے، ایک رومی آپ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں آپ کے لئے ایسی چیز بنا دیتا ہوں جس پر آپ بیٹھے بھی ہوں تو ایسا لگے کہ کھڑے ہیں، چنانچہ اس نے منبر بنایا جس کی دو سیڑھیوں پر آپ کھڑے ہوتے اور تیسری پر بیٹھتے تھے، جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوئے تو وہ تنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم میں بیل کی طرح ڈکرانے لگا اور مسجد گونجنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اسے چمٹا لیا تو وہ خاموش ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اسے چمٹاتا نہیں تو یہ اللہ کے رسول کے فراق میں قیامت تک اسی طرح روتا رہتا، پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اور اس تنے کو دفن کر دیا گیا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 42]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 42] »
اس روایت کی سند صحیح ہے جس کی تخریج گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند ابي يعلى 2756] ، [صحيح ابن حبان 6507] ، [موارد الظمآن 574]

7. باب مَا أُكْرِمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في بَرَكَةِ طَعَامِهِ:
7. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کھانے میں برکت کا بیان
حدیث نمبر: 43
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَيْمَنَ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتَهُ مِنْهُ أَرْوِيهِ عَنْكَ، فَقَالَ جَابِرٌ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفُرُهُ، فَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ لَا نَطْعَمُ طَعَامًا، وَلَا نَقْدِرُ عَلَيْهِ، فَعَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ كُدْيَةٌ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ كُدْيَةٌ قَدْ عَرَضَتْ، فِي الْخَنْدَقِ فَرَشَشْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ، فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ، أَوْ الْمِسْحَاةَ، ثُمَّ سَمَّى ثَلَاثًا، ثُمَّ ضَرَبَ فَعَادَتْ كَثِيبًا أَهْيَلَ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي، قَالَ: فَأَذِنَ لِي، فَجِئْتُ امْرَأَتِي، فَقُلْتُ: ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ قَدْ رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَا صَبْرَ لِي عَلَيْهِ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟، فَقَالَتْ: عِنْدِي صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَعَنَاقٌ، قَالَ: فَطَحَنَّا الشَّعِيرَ، وَذَبَحْنَا الْعَنَاقَ، وَسَلَخْتُهَا، وَجَعَلْتُهَا، فِي الْبُرْمَةِ وَعَجَنْتُ الشَّعِيرَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَبِثْتُ سَاعَةً، ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُهُ الثَّانِيَةَ فَأَذِنَ لِي، فَجِئْتُ، فَإِذَا الْعَجِينُ قَدْ أَمْكَنَ، فَأَمَرْتُهَا بِالْخَبْزِ وَجَعَلْتُ الْقِدْرَ عَلَى الْأَثَاثِي، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنَّمَا هِيَ الْأَثَافِيُّ وَلَكِنْ هَكَذَا، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ عِنْدَنَا طُعَيِّمًا لَنَا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَقُومَ مَعِي أَنْتَ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ مَعَكَ، فَقَالَ: "وَكَمْ هُوَ؟"، قُلْتُ: صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَعَنَاقٌ، فَقَالَ:"ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ وَقُلْ لَهَا لَا تَنْزِعْ الْقِدْرَ مِنْ الْأَثَافِيِّ، وَلَا تُخْرِجْ الْخُبْزَ مِنْ التَّنُّورِ حَتَّى آتِيَ"، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:"قُومُوا إِلَى بَيْتِ جَابِرٍ"، قَالَ: فَاسْتَحْيَيْتُ حَيَاءً لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ، قَدْ جَاءَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ، فَقَالَتْ: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَكَ: كَمْ الطَّعَامُ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَدْ أَخْبَرْتَهُ بِمَا كَانَ عِنْدَنَا، قَالَ: فَذَهَبَ عَنِّي بَعْضُ مَا كُنْتُ أَجِدُ، وَقُلْتُ: لَقَدْ صَدَقْتِ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ:"لَا تَضَاغَطُوا"،"ثُمَّ بَرَّكَ عَلَى التَّنُّورِ وَعَلَى الْبُرْمَةِ"، قَالَ: فَجَعَلْنَا نَأْخُذُ مِنْ التَّنُّورِ الْخُبْزَ، وَنَأْخُذُ اللَّحْمَ مِنْ الْبُرْمَةِ، فَنُثَرِّدُ وَنَغْرِفُ لَهُمْ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لِيَجْلِسْ عَلَى الصَّحْفَةِ سَبْعَةٌ أَوْ ثَمَانِيَةٌ"، فَإِذَا أَكَلُوا كَشَفْنَا عَنْ التَّنُّورِ، وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ، فَإِذَا هُمَا أَمْلَأُ مِمَّا كَانَا، فَلَمْ نَزَلْ نَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّمَا فَتَحْنَا التَّنُّورَ وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ، وَجَدْنَاهُمَا أَمْلَأَ مَا كَانَا حَتَّى شَبِعَ الْمُسْلِمُونَ كُلُّهُمْ، وَبَقِيَ طَائِفَةٌ مِنْ الطَّعَامِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ النَّاسَ قَدْ أَصَابَتْهُمْ مَخْمَصَةٌ، فَكُلُوا وَأَطْعِمُوا"، فَلَمْ نَزَلْ يَوْمَنَا ذَلِكَ نَأْكُلُ وَنُطْعِمُ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُمْ كَانُوا ثَمَانَ مِئَةٍ، أَوْ قَالَ: ثَلَاثَ مِئَةٍ، قَالَ أَيْمَنُ: لَا أَدْرِي أَيُّهُمَا قَالَ.
عبدالواحد بن ايمن مکی نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے ان سے سنی ہو تاکہ میں اسے روایت کر سکوں، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم غزوہ خندق کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گڈھا کھود رہے تھے، تین دن سے ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا اور نہ ہمارے پاس کچھ تھا ہی، اس خندق میں ایک چٹان نما ٹکڑا حائل ہو گیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! خندق میں یہ چٹان حائل ہو گئی ہے، ہم نے اس پر پانی چھڑک دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اس حال میں کہ آپ کے پیٹ سے پتھر بندھا ہوا تھا، آپ نے کدال یا پھاوڑا اٹھایا، تین بار بسم اللہ پڑھی اور ضرب لگائی تو وہ چٹان نما ٹکڑا بھربھرے تودے میں تبدیل ہو گیا، میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال دیکھا تو عرض کیا: اے اللہ کے پیغمبر! مجھے چھٹی دے دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت مرحمت فرما دی، چنانچہ میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور میں نے کہا تمہاری ماں تمہیں گم پائے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حالت دیکھی ہے کہ صبر نہیں کر پا رہا ہوں، تمہارے پاس (کھانے کے لئے) کچھ ہے؟ بیوی نے جواب دیا میرے پاس ایک صاع (تقریبا ڈھائی کیلو) جو کے دانے ہیں اور ایک یہ بھیڑ کا بچہ ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم نے جو پیسی اور بھیڑ کا بچہ ذبح کیا اور میں نے اس کی کھال اتاری اور ہانڈی چڑھا دی، آٹا گوندھ دیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ آیا اور کچھ دیر انتظار کر کے پھر آپ سے اجازت چاہی اور آپ نے مجھے اجازت دے دی، میں (گھر) آیا آٹا تیار ہو چکا تھا، میں نے بیوی کو روٹی لگانے کے لئے کہا اور میں نے ہانڈی چولہے پر چڑھا دی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ ہمارے پاس تھوڑا سا کھانا ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ خود چلیں اور دو ایک آدمی بھی اپنے ساتھ لے چلیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آخر کتنا کھانا ہے؟ عرض کیا ایک صاع جو اور ایک بھیڑ کا بچہ ہے۔ آپ نے فرمایا: اپنی بیوی کے پاس جاؤ اور کہدو کہ ہانڈی چولہے سے نہ اتارے اور تندور سے میرے آنے تک روٹی بھی نہ نکالے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں سے کہا: چلو جابر کے گھر چلو، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے اتنی شرم آئی کہ اللہ ہی جانتا ہے، میں نے بیوی سے کہا: تمہاری ماں تمہیں گم پائے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں، انہوں نے کہا: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے پوچھا تھا کتنا کھانا ہے؟ میں نے کہا ہاں پوچھا تو تھا، کہنے لگیں اللہ اور اس کے رسول زیادہ علم رکھتے ہیں، تم نے تو جو کچھ اپنے پاس ہے بتا دیا تھا، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیوی کے یہ کہنے سے میرا ڈر خوف رفع ہو گیا اور میں نے کہا: تم سچ کہتی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور داخل ہو گئے، اپنے صحابہ سے کہا: بھیٹر نہ لگانا، پھر آپ تندور اور بانڈری پر بیٹھ گئے اور برکت کی دعا کی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم تندور سے روٹیاں اور ہانڈی سے سالن لینے اور اس کا ثرید بنا کر پروسنے لگے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک) تھالی پر سات یا آٹھ افراد بیٹھ جائیں، جب وہ کھانا کھا لیتے تو ہم تندور اور ہانڈی کو کھول کر دیکھتے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ بھرے ہوئے نظر آتے، ہم اسی طرح کھلاتے رہے اور جب تندور و ہانڈی کو دیکھتے تو پہلے سے زیادہ بھرے نظر آتے یہاں تک کہ سب کے سب مسلمان شکم سیر ہو گئے اور اچھا خاصا کھانا بچا رہ گیا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو بھوک کی مصیبت آ پڑی ہے کھاؤ اور کھلاؤ، لہذا ہم پورے دن کھاتے اور کھلاتے رہے۔ راوی نے کہا کہ مجھے انہوں نے بتایا کہ ان کی تعداد آٹھ سو تھی یا تین سو پتا نہیں انہوں نے کون سا عدد بتایا تھا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 43]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عبد الرحمن بن محمد المحاربي موصوف بالتدليس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 43] »
اس واقعے کی یہ سند ضعیف ہے، اسے [ابن ابي شيبة 11755] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 422/3] میں ذکر کیا ہے لیکن اس کی اصل [صحيح بخاري 2142، 4011] و [صحيح مسلم 2039] میں موجود ہے اس لئے واقعہ صحیح ہے۔

حدیث نمبر: 44
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنْ تَجْعَلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا يَأْكُلُ مِنْهُ، قَالَ: ثُمَّ بَعَثَنِي أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: بَعَثَنِي إِلَيْكَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقَالَ لِلْقَوْمِ: "قُومُوا"، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ مَعَهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا صَنَعْتُ طَعَامًا لِنَفْسِكَ خَاصَّةً؟، فَقَالَ:"لَا عَلَيْكَ انْطَلِقْ"، قَالَ: فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ الْقَوْمُ، قَالَ: فَجِيءَ بِالطَّعَامِ،"فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ وَسَمَّى عَلَيْهِ"، ثُمَّ قَالَ:"ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ"، قَالَ: فَأَذِنَ لَهُمْ، فَقَالَ:"كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ"، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ قَامُوا،"ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ كَمَا صَنَعَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى وَسَمَّى عَلَيْهِ"، ثُمَّ قَالَ:"ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَقَالَ:"كُلُوا، بِاسْمِ اللَّهِ"فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ قَامُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا، قَالَ:"وَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكُوا سُؤْرًا".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (اپنی بیوی) سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا بناؤ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ابوطلحہ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، میں آپ کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ مجھے ابوطلحہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے، آپ نے تمام حاضرین سے کہا: چلو اٹھو، چنانچہ آپ اور وہ تمام حاضرین چل پڑے، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے صرف آپ کے لئے کھانا تیار کرایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا: فکر نہ کرو چلو، چنانچہ آپ بھی چلے اور وہ تمام لوگ بھی نکل پڑے، کھانا لایا گیا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک کھانے پر رکھا اور بسم اللہ پڑھی (برکت کی دعا کی) پھر کہا: اب دس دس آدمی کھانے کے لئے بلاؤ، اس طرح دس آدمی آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله کا نام لےکر کھانا شروع کرو، کھانا شروع ہوا اور دسوں آدمی شکم سیر ہوئے اور باہر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پہلے ہی کی طرح کھانے پر ہاتھ رکھا اور اللہ کا نام لیا اور دس آدمیوں کو کھانے پر بٹھایا اور کہا: بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کرو، چنانچہ انہوں نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے، اس طرح اسّی آدمیوں نے کھانا کھایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر والوں نے کھانا کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 44]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 44] »
اس واقعے کی سند صحیح ہے، اسے [امام مالك 19] ، [امام بخاري 3578] ، [امام مسلم 2040] ، [ترمذي 3634] ، [ابويعلى 2830] ، [ابن حبان 5285] وغیرہم نے ذکر کیا ہے۔

حدیث نمبر: 45
أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ طَبَخَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِدْرًا، فَقَالَ لَهُ: "نَاوِلْنِي الْذِّرَاعَ"، وَكَانَ يُعْجِبُهُ الذِّرَاعُ، فَنَاوَلَهُ الذِّرَاعَ، ثُمَّ قَالَ:"نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ"، فَنَاوَلَهُ ذِرَاعًا، ثُمَّ قَالَ:"نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ"، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَكَمْ لِلشَّاةِ مِنْ ذِرَاعٍ؟ فَقَالَ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَنْ لَوْ سَكَتَّ لَأُعْطَيْتَ أَذْرُعًا مَا دَعَوْتُ بِهِ".
سیدنا ابوعبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہانڈی پکائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: مجھے دستانہ (اگلے بازو کا گوشت) دینا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دستانہ پسند فرماتے تھے، لہذا سیدنا ابوعبید رضی اللہ عنہ نے آپ کے لئے دستانہ پیش کیا، پھر دوبارہ آپ نے طلب فرمایا تو دوبارہ حاضر خدمت کر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب فرمایا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بکری کے کتنے دستانے ہوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگرتم چپ رہتے تو جتنی بار میں طلب کرتا تم دستانے (بازو) لاتے اور پیش کرتے رہتے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 45]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل شهر بن حوشب، [مكتبه الشامله نمبر: 45] »
اس حدیث کی سند حسن ہے اور اسے [طبراني 842] ، [أحمد 484/6] ، [ابن حبان 6484] نے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر: 46
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَان، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ لِيُقَاتِلَهُمْ، فَقَالَ أَبِي عَبْدُ اللَّهِ: يَا جَابِرُ، لَا عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ، فِي نَظَّارِي أَهْلِ الْمَدِينَةِ حَتَّى تَعْلَمَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُنَا، فَإِنِّي وَاللَّهِ لَوْلَا أَنِّي أَتْرُكُ بَنَاتٍ لِي بَعْدِي، لَأَحْبَبْتُ أَنْ تُقْتَلَ بَيْنَ يَدَيَّ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا فِي النَّظَّارِينَ إِذْ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي وَخَالِي لِتَدْفُنَهُمَا فِي مَقَابِرِنَا، فَلَحِقَ رَجُلٌ يُنَادِي، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَرُدُّوا الْقَتْلَى فَتَدْفُنُوهَا فِي مَضَاجِعَهَا حَيْثُ قُتِلَتْ، فَرَدَدْنَاهُمَا، فَدَفَنَّاهُمَا فِي مَضْجَعِهِمَا حَيْثُ قُتِلَا: فَبَيْنَا أَنَا فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، لَقَدْ أَثَارَ أَبَاكَ عُمَّالُ مُعَاوِيَةَ، فَبَدَا، فَخَرَجَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ، فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي دَفَنْتُهُ لَمْ يَتَغَيَّرْ إِلَّا مَا لَمْ يَدَعِ الْقَتِيلَ، قَالَ: فَوَارَيْتُهُ، وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ فَاشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ، فِي التَّقَاضِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي أُصِيبَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، وَإِنَّهُ تَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا مِنَ التَّمْرِ، وَإِنَّهُ قَدْ اشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي الطَّلَبِ، فَأُحِبُّ أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ لَعَلَّهُ أَنْ يُنْظِرَنِي طَائِفَةً مِنْ تَمْرِهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ، قَالَ: "نَعَمْ آتِيكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَرِيبًا مِنْ وَسَطِ النَّهَارِ"، قَالَ: فَجَاءَ وَمَعَهُ حَوَارِيُّوهُ، قَالَ: فَجَلَسُوا فِي الظِّلِّ وَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَأْذَنَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْنَا، قَالَ: وَقَدْ قُلْتُ لِامْرَأَتِي: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنِي الْيَوْمَ وَسَطَ النَّهَارِ، فَلَا يَرَيَنَّكِ وَلَا تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي بِشَيْءٍ وَلَا تُكَلِّمِيهِ، فَفَرَشَتْ فِرَاشًا وَوِسَادَةً فَوَضَعَ رَأْسَهُ، فَنَامَ، فَقُلْتُ لِمَوْلًى لِي: اذْبَحْ هَذِهِ الْعَنَاقَ، وَهِيَ دَاجِنٌ سَمِينَة، فَالْوَحَا وَالْعَجْلَ افْرَغْ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَسْتَيْقِظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَكَ، فَلَمْ نَزَلْ فِيهَا حَتَّى فَرَغْنَا مِنْهَا , وَهُوَ نَائِمٌ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَسْتَيْقِظُ يَدْعُو بِطَهُورِ، وَأَنَا أَخَافُ إِذَا فَرَغَ أَنْ يَقُومَ , فَلَا يَفْرَغْ مِنْ طُهُورِهِ حَتَّى يُوضَعَ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ، قَالَ:"يَا جَابِرُ ائْتِنِي بِطَهُورٍ"، قَالَ: نَعَمْ، فَلَمْ يَفْرَغْ مِنْ وُضُوئِهِ حَتَّى وُضِعَتِ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيَّ، فَقَالَ:"كَأَنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ حُبَّنَا اللَّحْمَ، ادْعُ أَبَا بَكْر"، ثُمَّ دَعَا حَوَارِيِّيهِ، قَالَ: فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَوُضِعَ، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ، وَقَالَ:"بِسْمِ اللَّهِ كُلُوا"، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَفَضَلَ مِنْهَا لَحْمٌ كَثِيرٌ، وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ مَجْلِسَ بَنِي سَلِمَةَ لَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِمْ، هُوَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ أَعْيُنِهِمْ، مَا يَقْرَبُونَهُ مَخَافَةَ أَنْ يُؤْذُوهُ، ثُمَّ قَامَ، وَقَامَ أَصْحَابُهُ، فَخَرَجُوا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَكَانَ يَقُولُ:"خَلُّوا ظَهْرِي لِلْمَلَائِكَةِ"، قَالَ: فَاتَّبَعْتُهُمْ حَتَّى بَلَغْتُ سَقُفَّةَ الْبَابِ، فَأَخْرَجَتِ امْرَأَتِي صَدْرَهَا وَكَانَتْ سَتِّيرَةً، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي، قَالَ:"صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى زَوْجِكِ"، ثُمَّ قَالَ:"ادْعُوا لِي فُلَانًا لِلْغَرِيمِ الَّذِي اشْتَدَّ عَلَيَّ فِي الطَّلَبِ، فَقَالَ:"أَنْسِ جَابِرًا طَائِفَةً مِنْ دَيْنِكَ الَّذِي عَلَى أَبِيهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ"، قَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، قَالَ: وَاعْتَلَّ وَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ مَالُ يَتَامَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَيْنَ جَابِرٌ؟"قَالَ: قُلْتُ: أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:"كِلْ لَهُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَوْفَ يُوَفِّيهِ"، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَإِذَا الشَّمْسُ قَدْ دَلَكَتْ، قَالَ:"الصَّلَاةُ يَا أَبَا بَكْرٍ"، فَانْدَفَعُوا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقُلْتُ لِغَرِيمِي: قَرِّبْ أَوْعِيَتَكَ، فَكِلْتُ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضُلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَجِئْتُ أَسْعَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِهِ كَأَنِّي شَرَارَةٌ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ كِلْتُ لِغَرِيمِي تَمْرَهُ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضُلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَيْنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ؟"، قَالَ: فَجَاءَ يُهَرْوِلُ، قَالَ:"سَلْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَتَمْرِهِ"، قَالَ: مَا أَنَا بِسَائِلِهِ، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ إِذْ أَخْبَرْتَ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَدَّدَ عَلَيْهِ، وَرَدَّدَ عَلَيْهِ هَذِهِ الْكَلِمَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: مَا أَنَا بِسَائِلِهِ، وَكَانَ لَا يُرَاجَعُ بَعْدَ الْمَرَّةِ الثَّالِثَةِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ غَرِيمُكَ وَتَمْرُكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: وَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضُلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا، قالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى امْرَأَتِي، فَقُلْتُ: أَلَمْ أَكُنْ نَهَيْتُكِ أَنْ تُكَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي؟، فَقَالَتْ: تَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُورِدُ نَبِيَّهُ فِي بَيْتِي ثُمَّ يَخْرُجُ وَلَا أَسْأَلُهُ الصَّلَاةَ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي.
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے جہاد کے لئے نکلے تو میرے والد نے (مجھ سے) کہا کہ تم دیگر مدینہ والوں کی طرح دیکھ بھال کرنے والوں میں رہو تو کوئی مضائقہ نہیں یہاں تک کہ تمہیں پتہ چل جائے کہ ہمارا معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے، اللہ کی قسم اگر مجھے اپنے بعد اپنی بیٹیوں کی فکر نہ ہوتی تو میں پسند کرتا کہ تم میرے سامنے شہید کر دیئے جاؤ، اسی اثناء میں کہ میں اہل خانہ کی دیکھ بھال کرنے والوں میں سے تھا کہ میری پھوپھی میرے والد اور ماموں کو لے کر آئیں تاکہ ان دونوں کو ہمارے قبرستان میں دفن کر دیں کہ ایک شخص ندا دیتا آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ شہیدوں کو واپس لاؤ اور جہاں وہ شہید ہوئے ہیں وہیں انہیں دفن کیا جائے، لہذا ہم نے انہیں وہیں لوٹا دیا اور جہاں وہ شہید ہوئے تھے وہیں انہیں دفن کر دیا، (وقت گزرتا گیا) جب معاویہ بن ابی سفیان کا دور خلافت آیا تو میرے پاس ایک شخص آیا اور کہا: اے عبداللہ کے بیٹے جابر! تمہارے والد پر سے معاویہ کے کارندوں نے مٹی ہٹائی اور وہ ظاہر ہو گئے اور ان میں سے ایک حصہ ظاہر ہو گیا ہے، میں اس کی طرف گیا تو انہیں بالکل ویسا ہی پایا جیسے انہیں دفن کیا تھا، کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے پھر انہیں مٹی میں چھپا دیا۔ اور میرے باپ نے اپنے اوپر کھجور کا قرض چھوڑا تھا اور کچھ قرض دینے والوں نے مجھ پر تقاضے میں بڑی سختی کی لہٰذا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والد فلاں دن شہید ہو گئے اور انہوں نے کچھ کھجوروں کا قرض چھوڑا ہے اور کچھ قرض دینے والوں نے قرض واپس لینے کے لیے سختی کی ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ آپ میری مدد فرمائیں تاکہ وہ مجھے کچھ کھجور کے لئے آئندہ کٹائی تک کے لئے مہلت دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے میں ان شاء اللہ دوپہر تک تمہارے پاس آؤں گا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے حواریین کے تشریف لائے اور سائے میں بیٹھ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اپنی بیوی کو بتا دیا تھا کہ دوپہر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے، لہٰذا پردے میں رہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے گھر میں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچنے دینا، اور نہ تم ان سے کوئی بات کرنا، چنانچہ اس نے بستر اور تکیہ لگا دیا، آپ سر رکھ کر سو گئے تو میں نے اپنے غلام سے کہا بکری کا یہ بچہ ذبح کر دو جو پالتو، بہت تندرست، تیز رو، پھرتیلا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیدار ہونے سے پہلے اس سے فارغ ہو جاؤ، لہٰذا ہم دونوں اس میں لگ گئے اور فارغ بھی ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے، میں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوتے ہیں تو پانی طلب کرتے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ جب منہ ہاتھ دھو لیں تو چلے نہ جائیں، اس لئے جب تک آپ منہ دھوئیں وہ بکری کا بچہ آپ کے سامنے پیش کر دیا جائے، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو فرمایا: جابر پانی لاؤ، کہا: حاضر ہے اور آپ وضو سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ کے سامنے وہ مسلم بکری کا بچہ پیش کر دیا گیا۔ آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: شاید تمہیں معلوم ہے کہ گوشت ہمیں پسند ہے؟ جاؤ ابوبکر کو بھی بلا لاؤ اور آپ کے ساتھ جو آپ کے صحابہ آئے تھے انہیں بھی بلا لیا اور کھانا منگا کر رکھا گیا، آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا اور فرمایا: الله کا نام لے کر کھانا شروع کرو چنانچہ ان سب نے خوب شکم سیر ہو کر کھانا تناول کیا اور اس میں سے بہت سارا گوشت بچ بھی گیا اور الله کی قسم بنوسلمہ کی بیٹھک کے لوگ ان کو دیکھ رہے تھے، یہ ان کی نظر میں زیادہ اچھا تھا وہ اس لئے قریب نہیں آۓ کہ مبادا آپ کو تکلیف نہ ہو۔ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کھڑے ہوئے اور ان کے پاس سے ہٹ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے جاتے تھے: میری پشت فرشتوں کے لئے چھوڑ دو، میں دروازے کی چوکھٹ تک ان کے پیچھے گیا کہ میری بیوی نے باپردہ سر نکالا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اور میرے شوہر کے لئے دعا فرما دیجئے، آپ نے دعا کی اللہ تمہارے لئے اور تمہارے شوہر کے لئے رحمت و برکت نازل فرمائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں شخص کو بلاؤ، وہی جس نے مجھ سے اپنا قرض مانگنے میں سختی کی تھی اور اس سے کہا: جابر کو کچھ مہلت دے دو اس کے باپ کے اوپر جو قرض تھا اس میں سے کچھ آئندہ کٹائی کے وقت لے لینا، اس نے جواب دیا نہیں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا، عذر یہ پیش کیا کہ یہ یتیموں کا مال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جابر کہاں ہے؟ عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں یہاں موجود ہوں، آپ نے فرمایا: (جو کچھ تمہارے پاس ہے) ان کو تول کر دے دو، اللہ تعالی پورا کرائے گا، آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو سورج ڈھل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر چلو نماز کے لئے چنانچہ سب لوگ نماز کے لئے روانہ ہو گئے، میں نے اپنے قرض خواہ سے کہا: لاؤ اپنا برتن قریب لاؤ اور میں نے عجوہ کھجور تولنی شروع کی تو اللہ نے پوری بھی کرا دی اور قرض کے بعد کافی ساری بچ بھی گئی۔ میں دوڑتا ہوا گویا کہ میں آگ سے اڑنے والا شرارہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد آیا، دیکھا کہ آپ نماز سے فارغ ہو چکے ہیں، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے قرض خواہ کے لئے عجوہ کھجوریں تولیں تو وہ نہ صرف پوری ہو گئیں بلکہ کافی ساری بچ بھی گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر بن الخطاب کدھر ہیں؟، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جابر سے ان کے قرض خواہ اور کھجوروں کے بارے میں دریافت کرو، انہوں نے جواب دیا جب مجھے معلوم ہے کہ آپ نے ان کے لئے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اسے پورا فرما دے تو پھر پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں (یعنی یقیناً اللہ نے اس سے قرض پورا ادا کروا دیا ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ان سے یہی کہا اور تینوں بار انہوں نے یہی جواب دیا کہ مجھے یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ تین بار سے زیادہ کسی بات کو لوٹاتے نہیں تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے قرض مانگنے والے نے کیا کیا اور تمر کھجور کا کیا بنا؟ عرض کیا: الله تعالی نے قرض کی مقدار پوری فرما دی اور بہت سی کھجوریں بچی رہ گئیں۔ پھر میں اپنے گھر واپس آیا اور بیوی سے کہا: میں نے تم سے منع نہیں کیا تھا کہ میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات نہ کرنا؟ تو اس (نیک بخت) نے جواب دیا: آپ کا کیا خیال ہے الله تعالی میرے گھر میں اپنے نبی کو بھیجے اور آپ واپس تشریف لے جائیں اور میں اپنے اور آپ کے لئے دعا کی بھی درخواست نہ کروں؟ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 46]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 46] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کو [امام أحمد 397/3] و امام حاکم نے [مستدرك 110/4] میں اور ابویعلی نے [مسند 2077] میں اور ابن حبان نے [صحيح 916] میں روایت کیا ہے۔

8. باب مَا أُعْطِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْفَضْلِ:
8. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فضیلت عطا کی گئی اس کا بیان
حدیث نمبر: 47
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ فَضَّلَ مُحَمَّدًا صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ السَّلامُ وَعَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ، فَقَالُوا: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، بِمَ فَضَّلَهُ عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ؟، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِأَهْلِ السَّمَاءِ وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ سورة الأنبياء آية 29، وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا {1} لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ سورة الفتح آية 1-2، قَالُوا: فَمَا فَضْلُهُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ السَّلامُ؟ قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ سورة إبراهيم آية 4، وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا كَافَّةً لِلنَّاسِ سورة سبأ آية 28، فَأَرْسَلَهُ إِلَى الْجِنِّ وَالْإِنْسِ".
سیدنا عبداللہ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء علیہم السلام اور آسمان والوں پر فضیلت عطا کی، لوگوں نے پوچھا: اے عباس کے بیٹے! آسمان والوں پر کیسی فضیلت عطا فرمائی۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ تعالی نے آسمان میں رہنے والوں کے لئے فرمایا: ان میں سے کوئی بھی کہدے کہ اللہ کے سوا میں عبادت کے لائق ہوں تو ہم اسے دوزخ کی سزا دیں گے، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ [الأنبياء: 29/21] (یعنی بزرگی کے باوجود وہ جہنم رسید ہوں گے) اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا: اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو ایک ظاہر فتح دی ہے تاکہ جو کچھ تیرے گناہ آگے کئے ہوئے اور جو پیچھے رہے اللہ تعالی معاف فرما دے۔ [الفتح: 2،1/48] (یعنی آپ جو بھی کریں اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مواخذہ نہ ہو گا)۔ انہوں نے کہا: پھر تمام انبیاء پر آپ کی کیا فضیلت ہے؟ جواب دیا: اللہ تعالی نے فرمایا: ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے۔ [ابراهيم: 4/14] اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالی نے فرمایا: ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے۔ [سبا: 28/34] پس آپ کی رسالت تمام جن و انسان کے لئے ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 47]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 47] »
اس روایت کی سند صحیح ہے اور یہ اثر [مستدرك حاكم 350/2] ، [معجم الطبراني الكبير 11610] ، [دلائل النبوة 486/5] وغیرہ میں منقول ہے۔

حدیث نمبر: 48
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْتَظِرُونَهُ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ، سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ، فَتَسَمَّعَ حَدِيثَهُمْ، فَإِذَا بَعْضُهُمْ، يَقُولُ: عَجَبًا إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيلًا، فَإِبْرَاهِيمُ خَلِيلُهُ، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ: وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا سورة النساء آية 164، وَقَالَ آخَرُ: فَعِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ وَرُوحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّه، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَسَلَّمَ، وَقَالَ: "قَدْ سَمِعْتُ كَلَامَكُمْ وَعَجَبَكُمْ، إِنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ، وَهُوَ كَذَلِكَ، وَمُوسَى نَجِيُّهُ، وَهُوَ كَذَلِكَ، وَعِيسَى رُوحُهُ وَكَلِمَتُهُ، وَهُوَ كَذَلِكَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَهُوَ كَذَلِكَ، أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ، وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا فَخْرُ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرُ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ بِحَلَقِ الْجَنَّةِ وَلَا فَخْرُ، فَيَفْتَحُ اللَّهُ فَيُدْخِلُنِيهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا فَخْرُ، وَأَنَا أَكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ عَلَى اللَّهِ، وَلَا فَخْرُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھی بیٹھے آپ کا انتظار کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے قریب ہوئے اور ان کی باتیں سنیں، کسی نے کہا: تعجب ہے اللہ تعالی نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو دوست بنا لیا اور ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل ہیں، دوسرے نے کہا: اللہ تعالیٰ کا موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرنا اس سے بھی عجیب تر ہے، ایک نے کہا: اور عیسیٰ علیہ السلام تو الله تعالی کے کلمہ «كُنْ» سے پیدا ہو گئے اور روح ان کی اس کی طرف سے ہے، کسی نے کہا: اور آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پسند کیا، ان کو چن لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے آئے، سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری باتیں سنیں اور سنا تمہارا تعجب کرنا ابراہیم کے خلیل ہونے پر اور وہ ایسے ہی ہیں، اور موسیٰ کے اللہ سے نجی (سرگوشی کرنے والا) ہونے پر اور وہ بھی ایسے ہی ہیں، اور تمہیں تعجب ہے عیسٰی کے کلمۃ اللہ و روحہ ہونے پر وہ بھی ایسے ہی ہیں، اور آدم کے پسندیدہ ہونے پر وہ بھی ایسے ہی ہیں (یعنی یہ سب صحیح ہے) اور سنو! میں (بھی) الله کا محبوب ہوں اور اس پر فخر نہیں اور میں ہی قیامت کے دن حمد کے جھنڈے کو اٹھانے والا ہوں جس کے نیچے آدم علیہ السلام اور ان کے بعد کے لوگ ہوں گے۔ اس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور میں ہی سب سے پہلا شفاعت کرنے والا اور وہ پہلا شخص ہوں جس کی شفاعت قبول کی جائے گی، اس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو جنت کے دروازوں کی زنجیریں کھٹکھٹائے گا اور وہ میرے لئے کھول دی جائیں گی اور اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل فرمائے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اس میں بھی فخر نہیں، اور میں اللہ کے نزدیک اگلے پچھلے سب لوگوں میں سب سے زیادہ معزز و مکرم ہوں اس پر بھی کوئی فخر نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 48]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف زمعه، [مكتبه الشامله نمبر: 48] »
یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے لیکن اس کے شواہد ہیں جو صحیح ہیں۔ دیکھئے: [ترمذي 3620] ، [مسند ابي يعلی 3959، 3964] ، [ابن حبان 6242] نیز آگے دیکھئے حدیث نمبر 53۔

حدیث نمبر: 49
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَا أَوَّلُهُمْ خُرُوجًا، وَأَنَا قَائِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوا، وَأَنَا خَطِيبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوا، وَأَنَا مُسْتَشْفِعُهُمْ إِذَا حُبِسُوا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوا، الْكَرَامَةُ وَالْمَفَاتِيحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي، وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي، يَطُوفُ عَلَيَّ أَلْفُ خَادِمٍ كَأَنَّهُمْ بَيْضٌ مَكْنُونٌ، أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُورٌ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں سب سے پہلے نکلنے والا ہوں (یعنی قبر سے) اور میں ان کا راہبر ہوں گا جب وہ (اللہ کی درگاہ میں) حاضر ہوں گے، اور میں ان کا خطیب ہوں گا جب وہ خاموش ہوں گے، اور میں جب وہ روک لئے جائیں گے ان کی شفاعت و سفارش کرنے والا ہوں اور جب مایوس ہو جائیں گے میں ہی خوشخبری سنانے والا ہوں، عز و شرف اور کنجیاں اس دن میرے ہی پاس ہوں گی اور آدم علیہ السلام کی اولاد میں اپنے رب کے نزدیک میں سب سے زیادہ معزز و مکرم ہوں، ہزاروں خادم میرے ارد گرد گھومیں گے گویا کہ وہ چھپائے ہوئے ہیرے اور بکھرے ہوئے موتی ہوں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 49]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 49] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ امام ترمذی نے [جامع 3614] میں ذکر کیا اور حسن غریب کہا ہے۔ بیہقی نے بھی [دلائل النبوة 484/5] میں روایت کیا ہے وہ بھی ضعیف ہے لیکن یہ صفات دیگر صحیح احادیث میں بھی موجود ہیں جیسا کہ اگلی احادیث میں آگے آ رہا ہے۔

حدیث نمبر: 50
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ صَالِحٍ هُوَ ابْنُ عَطَاءِ بْنِ خَبَّابٍ مَوْلَى بَنِي الدُّئِلِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخْرُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا فَخْرُ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرُ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور اس میں کوئی فخر نہیں، میں خاتم النبیین ہوں اس میں بھی فخر نہیں، میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شخص ہوں جس کی شفاعت قبول کی جائے گی اور کوئی فخر نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 50]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 50] »
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [التاريخ الكبير للبخاري 286/4] ، [ابن حبان فى الثقات 455/6] ، [المعجم الأوسط 172] ، [دلائل النبوة 480/5]


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next