الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 2347
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَافَرَ أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2347]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الھبة 15 (2593)، المغازي 34 (4141)، النکاح 97 (5092)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2445)، التوبة 10 (2445)، سنن ابی داود/النکاح 39 (2138)، (تحفة الأشراف: 16678)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/151، 197، 269)، سنن الدارمی/النکاح 26 (2245)، الجہاد 31 (2467)، (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو: 1970) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2348
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ:" أُتِيَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَهُوَ بِالْيَمَنِ فِي ثَلَاثَةٍ قَدْ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ فَسَأَلَ اثْنَيْنِ، فَقَالَ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَقَالَا: لَا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ، فَقَالَ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَقَالَا: لَا، فَجَعَلَ كُلَّمَا سَأَلَ اثْنَيْنِ أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ قَالَا: لَا، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي أَصَابَتْهُ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيِ الدِّيَةِ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ".
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جب یمن میں تھے، تو ان کے پاس یہ مقدمہ آیا کہ تین آدمیوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی، تو انہوں نے پہلے دو آدمیوں سے پوچھا: کیا تم دونوں اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے؟ ان دونوں نے کہا: نہیں، پھر دو کو الگ کیا، اور ان سے پوچھا: کیا تم دونوں اقرار کرتے ہو کہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے؟ اس طرح جب وہ دو دو سے پوچھتے کہ تم اس لڑکے کو تیسرے کا کہتے ہو؟ تو وہ انکار کرتے، آخر انہوں نے قرعہ اندازی کی، اور جس کے نام قرعہ نکلا وہ لڑکا اس کو دلایا، اور دو تہائی کی دیت اس پر لازم کر دی، اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ ہنسے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت ظاہر ہو گئے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2348]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطلاق 32 (2270)، سنن النسائی/الطلاق 50 (3518)، (تحفة الأشراف: 3670)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/373، 474) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

21. بَابُ: الْقَافَةِ
21. باب: قیافہ شناسوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2349
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مَسْرُورًا وَهُوَ يَقُولُ: يَا عَائِشَةُ،" أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ دَخَلَ عَلَيَّ فَرَأَى أُسَامَةَ وَزَيْدًا عَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا وَقَدْ بَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش تشریف لائے، آپ فرما رہے تھے: عائشہ! کیا تم نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا، اس نے اسامہ اور زید بن حارثہ کو ایک چادر میں سویا ہوا دیکھا، وہ دونوں اپنے سر چھپائے ہوئے تھے، اور دونوں کے پیر کھلے تھے، تو کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2349]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المناقب 23 (3355)، فضائل الصحابہ 17 (3731)، الفرائض 31 (6771)، صحیح مسلم/الرضاع 11 (1459)، سنن ابی داود/الطلاق 31 (2267)، سنن الترمذی/الولاء 5 (2129)، سنن النسائی/الطلاق 51 (3423، 3524)، (تحفة الأشراف: 16433)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/82، 226) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2350
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ قُرَيْشًا أَتَوْا امْرَأَةً كَاهِنَةً فَقَالُوا لَهَا: أَخْبِرِينَا أَشْبَهَنَا أَثَرًا بِصَاحِبِ الْمَقَامِ، فَقَالَتْ: إِنْ أَنْتُمْ جَرَرْتُمْ كِسَاءً عَلَى هَذِهِ السِّهْلَةِ ثُمَّ مَشَيْتُمْ عَلَيْهَا أَنْبَأْتُكُمْ، قَالَ:" فَجَرُّوا كِسَاءً ثُمَّ مَشَى النَّاسُ عَلَيْهَا فَأَبْصَرَتْ أَثَرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: هَذَا أَقْرَبُكُمْ إِلَيْهِ شَبَهًا ثُمَّ مَكَثُوا بَعْدَ ذَلِكَ عِشْرِينَ سَنَةً أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے ایک کاہنہ کے پاس آ کرکہا: ہمیں بتاؤ کہ ہم میں سے کون مقام ابراہیم کے صاحب (ابراہیم علیہ السلام) سے زیادہ مشابہ ہے؟، وہ بولی: اگر تم ایک کمبل لے کر اسے اس نرم اور ہموار زمین پر گھسیٹو پھر اس پر چلو تو میں بتاؤں، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے کمبل کو زمین پر پھیرا (تاکہ زمین کے نشانات مٹ جائیں) پھر لوگ اس پر چلے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے نشانات دیکھے، تو بولی: یہ شخص تم میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہے، پھر اس واقعہ پر بیس سال یا جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا گزرے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2350]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماحہ، (تحفة الأشراف: 6130، ومصباح الزجاجة: 824)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/332) (منکر ضعیف)ط (سماک بن حرب کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے)

قال الشيخ الألباني: منكر ضعيف

22. بَابُ: تَخْيِيرِ الصَّبِيِّ بَيْنَ أَبَوَيْهِ
22. باب: بچے کو اختیار دینا کہ ماں باپ میں سے جس کے پاس رہنا چاہے رہے۔
حدیث نمبر: 2351
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيَّرَ غُلَامًا بَيْنَ أَبِيهِ وَأُمِّهِ وَقَالَ:" يَا غُلَامُ هَذِهِ أُمُّكَ وَهَذَا أَبُوكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکے کو اختیار دیا کہ وہ اپنے باپ کے پاس رہے یا ماں کے پاس اور فرمایا: بچے! یہ تیری ماں ہے اور یہ تیرا باپ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2351]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطلاق 35 (2277)، سنن الترمذی/الأحکام 21 (1357)، سنن النسائی/الطلاق 5 (3526)، (تحفة الأشراف: 15463)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/447)، سنن الدارمی/الطلاق 15 (2339) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2352
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ أَبَوَيْهِ اخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا كَافِرٌ وَالْآخَرُ مُسْلِمٌ، فَخَيَّرَهُ فَتَوَجَّهَ إِلَى الْكَافِرِ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اهْدِهِ". فَتَوَجَّهَ إِلَى الْمُسْلِمِ فَقَضَى لَهُ بِهِ.
رافع بن سنان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے ماں اور باپ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، ان میں سے ایک کافر تھے اور ایک مسلمان، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (رافع) کو اختیار دیا (کہ جس کے ساتھ جانا چاہیں جا سکتے ہیں) وہ کافر کی طرف متوجہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو ہدایت دے، پھر وہ مسلمان کی طرف متوجہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (مسلمان) کے پاس ان کے رہنے کا فیصلہ فرما دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2352]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حدیث عبد الحمید بن سلمة عن أبیہ عن جدہ، علی أن إسم أبویہ لایعرفان تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشرا ف: 15586، مصباح الزجاجة: 852)، وحدیث عبد الحمید بن سملة عن جدہ رافع بن سنان أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق 26 (2244)، سنن النسائی/الطلاق 52 (3525)، (تحفة الأشراف: 3594) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں عبدالحمید بن سلمہ عن أبیہ عن جدہ تینوں مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 41 19)

قال الشيخ الألباني: صحيح

23. بَابُ: الصُّلْحِ
23. باب: صلح کا بیان۔
حدیث نمبر: 2353
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا".
عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: مسلمانوں کے مابین صلح جائز ہے، سوائے ایسی صلح کے جو حلال کو حرام کر دے یا حرام کو حلال ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2353]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأحکام 17 (1352)، (تحفة الأشراف: 10775) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

24. بَابُ: الْحَجْرِ عَلَى مَنْ يُفْسِدُ مَالَهُ
24. باب: جو شخص اپنا مال برباد کرتا ہو تو اس پر حجر (پابندی لگانا) درست ہے۔
حدیث نمبر: 2354
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، وَكَانَ يُبَايِعُ وَأَنَّ أَهْلَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ احْجُرْ عَلَيْهِ فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ، فَقَال:" إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ هَا وَلَا خِلَابَةَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کچھ کم عقل تھا، اور وہ خرید و فروخت کرتا تھا تو اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دیجئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا، اور اس کو خرید و فروخت کرنے سے منع کیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ خرید و فروخت نہ کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا جب خرید و فروخت کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ دھوکا دھڑی کی بات نہیں چلے گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2354]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 68 (3501)، سنن الترمذی/البیوع 28 (1250)، سنن النسائی/البیوع 10 (4490)، (تحفة الأشراف: 1175)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/217) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2355
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانٍ ، قَالَ: هُوَ جَدِّي مُنْقِذُ بْنُ عَمْرٍو وَكَانَ رَجُلًا قَدْ أَصَابَتْهُ آمَّةٌ فِي رَأْسِهِ فَكَسَرَتْ لِسَانَهُ، وَكَانَ لَا يَدَعُ عَلَى ذَلِكَ التِّجَارَةَ، وَكَانَ لَا يَزَالُ يُغْبَنُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَهُ:" إِذَا أَنْتَ بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ، ثُمَّ أَنْتَ فِي كُلِّ سِلْعَةٍ ابْتَعْتَهَا بِالْخِيَارِ ثَلَاثَ لَيَالٍ، فَإِنْ رَضِيتَ فَأَمْسِكْ وَإِنْ سَخِطْتَ فَارْدُدْهَا عَلَى صَاحِبِهَا".
محمد بن یحییٰ بن حبان کہتے ہیں کہ میرے دادا منقذ بن عمرو ہیں، ان کے سر میں ایک زخم لگا تھا جس سے ان کی زبان بگڑ گئی تھی، اس پر بھی وہ تجارت کرنا نہیں چھوڑتے تھے، اور ہمیشہ ٹھگے جاتے تھے، بالآخر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جب تم کوئی چیز بیچو تو یوں کہہ دیا کرو: دھوکا دھڑی نہیں چلے گی، پھر تمہیں ہر اس سامان میں جسے تم خریدتے ہو تین دن کا اختیار ہو گا، اگر تمہیں پسند ہو تو رکھ لو اور اگر پسند نہ آئے تو اسے اس کے مالک کو واپس کر دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2355]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 19428، ومصباح الزجاجة: 826) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور راویت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، کما تقدم، تراجع الألبانی: رقم: 102)

قال الشيخ الألباني: حسن

25. بَابُ: تَفْلِيسِ الْمُعْدَمِ وَالْبَيْعِ عَلَيْهِ لِغُرَمَائِهِ
25. باب: مفلس آدمی کو دیوالیہ قرار دے کر اس کا مال بیچ کر قرض خواہوں کو ادائیگی کرنا۔
حدیث نمبر: 2356
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا فَكَثُرَ دَيْنُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ"، فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ" يَعْنِي الْغُرَمَاءَ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص کو اس کے خریدے ہوئے پھلوں میں گھاٹا ہوا، اور وہ بہت زیادہ مقروض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: تم لوگ اسے صدقہ دو چنانچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، لیکن اس سے اس کا قرض پورا ادا نہ ہو سکا، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مل گیا وہ لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ہے یعنی قرض خواہوں کے لیے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2356]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساقاة 4 (1556)، سنن ابی داود/البیوع 60 (3469)، سنن الترمذی/الزکاة 24 (655)، سنن النسائی/البیوع 28 (4534)، 93 (4682)، (تحفة الأشراف: 4270)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/36، 56، 58) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next