الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
27. بَابُ وَقْتِ الْفَجْرِ:
27. باب: نماز فجر کا وقت۔
حدیث نمبر: 575
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ،" أَنَّهُمْ تَسَحَّرُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ، قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا، قَالَ: قَدْرُ خَمْسِينَ أَوْ سِتِّينَ"، يَعْنِي آيَةً.
ہم سے عمرو بن عاصم نے یہ حدیث بیان کی، کہا ہم سے ہمام نے یہ حدیث بیان کی قتادہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ ان لوگوں نے (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے دریافت کیا کہ ان دونوں کے درمیان کس قدر فاصلہ رہا ہو گا۔ فرمایا کہ جتنا پچاس یا ساٹھ آیت پڑھنے میں صرف ہوتا ہے اتنا فاصلہ تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 575]
   صحيح البخاريتسحرا فلما فرغا من سحورهما قام نبي الله إلى الصلاة فصلى
   صحيح البخاريتسحروا مع النبي ثم قاموا إلى الصلاة قلت كم بينهما قال قدر خمسين أو ستين
   صحيح البخاريتسحرا فلما فرغا من سحورهما قام نبي الله إلى الصلاة فصلى
   صحيح البخاريكم كان بين الأذان والسحور قال قدر خمسين آية
   صحيح مسلمتسحرنا مع رسول الله ثم قمنا إلى الصلاة قلت كم كان قدر ما بينهما قال خمسين آية
   جامع الترمذيتسحرنا مع النبي ثم قمنا إلى الصلاة قال قلت كم كان قدر ذلك قال قدر خمسين آية
   سنن النسائى الصغرىتسحر رسول الله وزيد بن ثابت ثم قاما فدخلا في صلاة الصبح فقلنا لأنس كم كان بين فراغهما ودخولهما في الصلاة قال قدر ما يقرأ الإنسان خمسين آية
   سنن النسائى الصغرىتسحرنا مع رسول الله ثم قمنا إلى الصلاة قلت كم كان بينهما قال قدر ما يقرأ الرجل خمسين آية
   سنن النسائى الصغرىتسحرنا مع رسول الله ثم قمنا إلى الصلاة قلت زعم أن أنسا القائل ما كان بين ذلك قال قدر ما يقرأ الرجل خمسين آية
   سنن ابن ماجهتسحرنا مع رسول الله ثم قمنا إلى الصلاة قلت كم بينهما قال قدر قراءة خمسين آية
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 575 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 575  
تشریح:
پچاس یا ساٹھ آیتیں دس منٹ میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سحری دیر سے کھانا مسنون ہے۔ جو لوگ سویرے ہی سحری کھا لیتے ہیں وہ سنت کے خلاف کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 575   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2157  
´سحری اور نماز فجر کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہئے؟`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم اٹھ کر نماز کے لیے گئے، انس کہتے ہیں: میں نے پوچھا: ان دونوں کے درمیان کتنا (وقفہ) تھا؟ تو انہوں نے کہا: اس قدر جتنے میں ایک آدمی پچاس آیتیں پڑھ لے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2157]
اردو حاشہ:
(1) سکون کے ساتھ پچاس آیات پڑھنے کے لیے بھی کم سے کم دس منٹ ضروری ہیں۔
(2) حسن ادب ہمہ وقت انسان کے پیش نظر رہنا چاہیے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ نہیں کہا ہم نے اور رسول اللہﷺ نے سحری کھائی بلکہ کہا کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ سحری کھائی کیونکہ اس میں تبعیت کی طرف اشارہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2157   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2159  
´قتادہ سے روایت میں ہشام و سعید کے اختلاف کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور زید بن ثابت نے سحری کھائی، پھر وہ دونوں اٹھے، اور جا کر نماز فجر پڑھنی شروع کر دی۔ قتادہ کہتے ہیں: ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ان دونوں کے (سحری سے) فارغ ہونے اور نماز شروع کرنے میں کتنا (وقفہ) تھا؟ تو انہوں نے کہا: اس قدر کہ جتنے میں ایک آدمی پچاس آیتیں پڑھ لے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2159]
اردو حاشہ:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل حضرت قتادہ ہیں اور جواب دینے والے حضرت انس رضی اللہ عنہ۔ جبکہ پہلی دو روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل حضرت انس رضی اللہ عنہ ہیں اور جواب دینے والے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، مگر بعید نہیں کہ دونوں درست ہوں، یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان کے شاگرد حضرت قتادہ رحمہ اللہ نے۔ دونوں واقعات میں کوئی منافات نہیں۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2159   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1694  
´سحری دیر سے کھانے کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: سحری اور نماز کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ کہا: پچاس آیتیں پڑھنے کی مقدار ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1694]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر چہ سحری کا کھا نا صبح صادق سے کا فی پہلے بھی کھا یا جا سکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ را ت کے آخری حصے میں صبح صادق سے تھو ڑی دیر پہلے کھا یا جا ئے
(2)
  فجر کی نما ز اول وقت میں ادا کر نا افضل ہے رسول اللہ ﷺ نے سحری کے بعد مختصر وقفہ دے کر فجر کی نما ز ادا کی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1694   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 703  
´سحری تاخیر سے کھانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی، پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، انس کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اس کی مقدار کتنی تھی؟ ۱؎ انہوں نے کہا: پچاس آیتوں کے (پڑھنے کے) بقدر ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 703]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی ان دونوں کے بیچ میں کتنا وقفہ تھا۔

2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ سحری بالکل آخری وقت میں کھائی جائے،
یہی مسنون طریقہ ہے تاہم صبح صادق سے پہلے کھا لی جائے اور یہ وقفہ پچاس آیتوں کے پڑھنے کے بقدر ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 703   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2552  
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ راوی نے پوچھا: سحری اور قیام میں کس قدر وقفہ تھا۔ انھوں نے جواب دیا: پچاس آیات کی تلاوت کے بقدر۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2552]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رمضان میں اذان اور نماز کے درمیان زیادہ فاصلہ ہونا چاہیے اور سحری سے اذان سے پہلے فارغ ہونا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2552   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1134  
1134. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے سحری کھائی۔ جب اس سے فارغ ہوئے تو اللہ کے نبی ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور نماز ادا کی۔ ہم نے حضرت انس ؓ سے سوال کیا کہ ان کے سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے میں کتنا وقت تھا؟ انہوں نے فرمایا: تقریبا اتنی دیر جس میں کوئی شخص پچاس آیات کی تلاوت کر سکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1134]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ یہا ں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے جو احادیث بیان ہوئی ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ تہجد پڑھ کر لیٹ جاتے تھے اور پھر مؤذن صبح کی نماز کی اطلاع دینے آتا تھا، لیکن یہ بھی آپ سے ثابت ہے کہ آپ اس وقت لیٹتے نہیں تھے، بلکہ صبح کی نماز پڑھتے تھے۔
آپ ﷺ کا یہ معمول رمضان کے مہینہ میں تھا کہ سحری کے بعد تھوڑا سا توقف فرماتے پھر فجر کی نماز اندھیرے میں ہی شروع کردیتے تھے (تفہیم البخاری)
پس معلوم ہواکہ فجر کی نماز غلس میں پڑھنا سنت ہے جو لوگ اس سنت کا انکار کرتے اور فجر کی نماز ہمیشہ سورج نکلنے کے قریب پڑھتے ہیں وہ یقینا سنت کے خلاف کر تے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1134   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1921  
1921. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ سحری کھائی پھر آپ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ حضرت انس ؓ نے دریافت کیا کہ اذان فجر اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا؟حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: پچاس آیات کی تلاوت کرنے کے برابر وقفہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1921]
حدیث حاشیہ:
سند میں حضرت قتادہ بن دعامہ کا نام آیا ہے، ان کی کنیت ابوالخطاب السدوی ہے، نابینا اور قوی الحافظہ تھے، بکر بن عبداللہ مزنی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ جس کا جی چاہے اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ قوی الحافظہ بزرگ کی زیارت کرے وہ قتادہ کو دیکھ لے۔
خود قتادہ کہتے ہیں کہ جو بات بھی میرے کان میں پڑتی ہے اسے قلب فوراً محفوظ کر لیتا ہے۔
عبداللہ بن سرجس اور انس ؓ اور بہت سے دیگر حضرات سے روایت کرتے ہیں۔
70 ھ میں انتقال فرمایا۔
رحمة اللہ علیه (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1921   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:576  
576. حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہےکہ نبی ﷺ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے ایک دفعہ سحری کھائی، جب سحری سے فارغ ہو گئے تو نبی ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور دونوں نے نماز پڑھی۔ ہم نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا: سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے تک کتنا وقفہ تھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جتنے میں ایک انسان پچاس آیات پڑھ سکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:576]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان دونوں روایات کامضمون تقریبا ایک ہے، یعنی ان میں نماز اور سحری کا وقفہ بیان کیا گیا ہے کہ جتنے عرصے میں پچاس یا ساٹھ آیات کی تلاوت کی جاسکے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سحری اور نماز کے درمیان بہت کم وقفہ تھا اور سحری سے فراغت کے بعد جلد ہی نماز کےلیے کھڑے ہوجاتے تھے۔
ان احادیث کے پیش نظر امام بخاری ؒ کایہ موقف ہے کہ نماز فجر صبح صادق کے بعد اندھیرے میں شروع کردی جائے۔
بعض احادیث میں اس کی صراحت ہے، جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز، صبح صادق طلوع ہوتے ہی شروع فرما دیتے تھے، حتی کہ اندھیرے کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو پہچان بھی نہیں سکتے تھے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1393(614)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فجر دوطرح کی ہوتی ہے:
ایک وہ فجر جس میں کھانا حرام اور نماز ادا کرنا جائز ہے اور دوسری وہ فجر جس میں نماز پڑھنا حرام لیکن کھانا مباح ہے۔
(المستدرك للحاکم: 191/1)
حضرت جابر ؓ کی روایت میں مزید وضاحت ہے کہ وہ صبح جو بھیڑیے کی دم کی طرح اونچی چلی جاتی ہے، اس میں نماز پڑھنا حرام اور کھانا مباح ہوتا ہے اور وہ صبح جو آسمان کےکناروں میں پھیل جاتی ہے، اس میں نماز پڑھنا مباح اور کھانا حرام ہوتا ہے۔
(المستدرك للحاکم: 191/1) (2)
حضرت انس ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سحری میں شریک نہیں تھے۔
ایک تفصیلی رویت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ سے فرمایا:
میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، کھانے وغیرہ کا بندوبست کرو۔
چنانچہ میں کھجور اور پانی لےکر حاضر خدمت ہوا، پھر آپ نے فرمایا:
کوئی آدمی تلاش کرو جو میرے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے۔
تو میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کوبلالایا،وہ آئے اور سحری میں شریک ہوگئے، فراغت کے بعد آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر نماز فجر کےلیے کھڑے ہوگئے۔
(فتح الباري: 72/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 576   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1134  
1134. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے سحری کھائی۔ جب اس سے فارغ ہوئے تو اللہ کے نبی ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور نماز ادا کی۔ ہم نے حضرت انس ؓ سے سوال کیا کہ ان کے سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے میں کتنا وقت تھا؟ انہوں نے فرمایا: تقریبا اتنی دیر جس میں کوئی شخص پچاس آیات کی تلاوت کر سکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1134]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک میں معمول بیان ہوا ہے کہ عام دنوں میں آپ سحری کے وقت سوئے رہتے تھے، پھر اٹھ کر صبح کی نماز پڑھتے تھے، لیکن رمضان المبارک میں سحری سے فراغت کے بعد صبح کی نماز کی تیاری میں مصروف ہو جاتے اور پھر نماز ادا فرماتے۔
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہ عنوان بایں الفاظ ہے:
جس نے سحری کی، پھر نماز کے لیے تیار ہوا اور نماز صبح ادا کرنے تک نہ سویا۔
(عمدةالقاري: 366/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1134   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1921  
1921. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ سحری کھائی پھر آپ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ حضرت انس ؓ نے دریافت کیا کہ اذان فجر اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا؟حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: پچاس آیات کی تلاوت کرنے کے برابر وقفہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1921]
حدیث حاشیہ:
(1)
معلوم ہوا کہ سحری دیر سے کرنی چاہیے۔
یہ بات خلاف سنت ہے کہ آدھی رات کو انسان سحری کھا کر سو جائے۔
مسنون یہ ہے کہ طلوع فجر سے تھوڑا وقت پہلے سحری سے فراغت ہو، پھر نماز فجر کی تیاری میں مصروف ہو جانا چاہیے۔
حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں:
ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کی تو دن کے روشن ہونے تک سحری کھاتے رہے، البتہ سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔
(سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2154)
یہ روایت حضرت زید بن ثابت ؓ والی حدیث کے مخالف ہے۔
علماء نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں۔
راجح بات یہ ہے کہ حضرت حذیفہ کی روایت مرفوعا صحیح نہیں، اس لیے صحیح دلائل کے مخالف نہیں ہو سکتی۔
اور اگر اسے صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ منسوخ ہو گی اور حضرت زید کی روایت اور اس موضوع کے دیگر دلائل اس کے ناسخ ہوں گے۔
(ذخیرةالعقبیٰ شرح سنن النسائي: 350/20) (2)
قرآن کریم نے سفید دھاگے کے نمایاں ہونے سے روزہ فرض کیا ہے، اس کے بعد کھانا پینا حرام ہے تو اس کے بعد سحری کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ الغرض حضرت حذیفہ ؓ کی مذکورہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے، اس کے علاوہ حضرت زید ؓ کی حدیث پر شیخین نے اتفاق کیا ہے۔
حدیث میں ہے کہ ابن ام مکتوم کی اذان تک کھانے پینے کی اجازت ہے، الغرض انسان کو نماز فجر سے قبل سحری سے فراغت حاصل کر لینی چاہیے۔
(فتح الباري: 178/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1921