الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2424
2424. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ان کا کچھ قرض حضرت عبداللہ بن ابی حدرد اسلمی ؓ کے ذمے تھا۔ حضرت کعب ؓ ان سے ملے اور انھیں اپنی نگرانی میں لے لیا، بالآخر دونوں میں جھگڑا ہوا ح حتیٰ کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ نبی کریم ﷺ ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”ا ے کعب!“ اور آپ نے ا پنے دست اقدس سے اشارہ فرمایا کہ آدھا قرض چھوڑ دو، چنانچہ حضرت کعب ؓ نے آدھا قرض وصول کیا اور باقی آدھا چھوڑ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2424]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان میں ملازمت کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کے معنی نوکری کرنا نہیں بلکہ کسی کے پیچھے پڑنا اور نگرانی کرنا ہیں۔
آپ نے کسی سے کچھ لینا ہے تو آپ اس کا تعاقب کر سکتے ہیں، اسے اپنی نگرانی میں لے سکتے ہیں، چنانچہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مقروض کو پابند کیا جا سکتا ہے۔
اگر یہ کام ناجائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس سے منع فرما دیتے۔
آپ ﷺ کا اس کے متعلق انکار نہ کرنا اس کے جواز کی دلیل ہے۔
ہاں اگر مقروض غریب اور نادار ہو تو اس کے ساتھ نرمی کرنی چاہیے۔
اسے نگرانی میں لینے کے بجائے اسے مزید مہلت دی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر اس کی تلقین فرمائی ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک کام کے لیے سفارش کی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے قرض معاف کر دینے کی سفارش کی تھی۔
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2424