الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
18. باب الإِمْدَادِ بِالْمَلاَئِكَةِ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ وَإِبَاحَةِ الْغَنَائِمِ:
18. باب: فرشتوں کی مدد بدر کی لڑائی میں اور مباح ہونا لوٹ کا۔
حدیث نمبر: 4588
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ح، وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ هُوَ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفٌ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَتِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ، فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، وَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9 فَأَمَدَّهُ اللَّهُ بِالْمَلَائِكَةِ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: فَحَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي أَثَرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ، فَوْقَهُ وَصَوْتَ الْفَارِسِ، يَقُولُ: أَقْدِمْ حَيْزُومُ، فَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ، فَخَرَّ مُسْتَلْقِيًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ وَشُقَّ وَجْهُهُ كَضَرْبَةِ السَّوْطِ، فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَعُ، فَجَاءَ الْأَنْصَارِيُّ فَحَدَّثَ بِذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: صَدَقْتَ، ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ وَأَسَرُوا سَبْعِينَ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا أَسَرُوا الْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ: مَا تَرَوْنَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى؟، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ هُمْ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةِ أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ، فِدْيَةً فَتَكُونُ لَنَا قُوَّةً عَلَى الْكُفَّارِ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ لِلْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟، قُلْتُ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَرَى الَّذِي رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَّا فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ فَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنِّي مِنْ فُلَانٍ نَسِيبًا لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَإِنَّ هَؤُلَاءِ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَصَنَادِيدُهَا، فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ قَاعِدَيْنِ يَبْكِيَانِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَبْكِي أَنْتَ وَصَاحِبُكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْكِي لِلَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ أَخْذِهِمُ الْفِدَاءَ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُهُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، شَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ سورة الأنفال آية 67 إِلَى قَوْلِهِ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالا طَيِّبًا سورة الأنفال آية 69 فَأَحَلَّ اللَّهُ الْغَنِيمَةَ لَهُمْ ".
ابوزمیل سماک حنفی نے کہا: مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: جب در کا دن تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے، اور آپ کے ساتھ تین سو انیس آدمی تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے، پھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بلند آواز سے اپنے رب کو پکارنے لگے: "اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا اسے میرے لیے پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری بندگی نہیں ہو گی۔" آپ قبلہ رو ہو کر اپنے ہاتھوں کو پھیلائے مسلسل اپنے رب کو پکارتے رہے حتی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، چادر اٹھائی اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے: اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہو گیا۔ وہ جلد ہی آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: "جب تم لوگ اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں ایک دوسرے کے پیچھے اترنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔" پھر اللہ نے فرشتوں کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی۔ ابوزمیل نے کہا: مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: اس دوران میں، اس دن مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے سامنے بھاگتے ہوئے مشرکوں میں سے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس نے اپنے اوپر سے کوڑا مارنے اور اس کے اوپر سے گھڑ سوار کی آواز سنی، جو کہہ رہا تھا: حیزوم! آگے بڑھ۔ اس نے اپنے سامنے مشرک کی طرف دیکھا تو وہ چت پڑا ہوا تھا، اس نے اس پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان پڑا ہوا تھا، کوڑے کی ضرب کی طرح اس کا چہرہ پھٹا ہوا تھا اور وہ پورے کا پورا سبز ہو چکا تھا، وہ انصاری آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: "تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان سے (آئی ہوئی) مدد تھی۔" انہوں (صحابہ) نے اس دن ستر آدمی قتل کیے اور ستر قیدی بنائے۔ ابوزمیل نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب انہوں نے قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: "ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟" تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے بیٹے ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، یہ کافروں کے خلاف ہماری قوت کا باعث ہو گا، ہو سکتا ہے کہ اللہ ان کو اسلام کی راہ پر چلا دے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟" کہا: میں نے عرض کی: نہیں، اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میری رائے وہ نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ہمیں اختیار دیں اور ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ آپ عقیل پر علی رضی اللہ عنہ کو اختیار دیں وہ اس کی گردن اڑا دیں اور مجھے فلاں۔۔ عمر کے ہم نسب۔۔ پر اختیار دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں۔ یہ لوگ کفر کے پیشوا اور بڑے سردار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند کیا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہی تھی اور جو میں نے کہا تھا اسے پسند نہ فرمایا۔ جب اگلا دن ہوا (اور) میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے، آپ اور آپ کا ساتھی کس چیز پر رو رہے ہیں؟ اگر مجھے رونا آ یا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو بھی میں آپ دونوں کے رونے کی بنا پر رونے کی کوشش کروں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اس بات پر رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے ان سے فدیہ لینے کے بارے میں میرے سامنے پیش کی تھی، ان کا عذاب مجھے اس درخت سے بھی قریب تر دکھایا گیا"۔۔ وہ درخت جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا۔۔ اور اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں: "کسی نبی کے لیے (روا) نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خون بہائے۔۔۔" اس فرمان تک۔۔۔ "تو تم اس میں سے کھاؤ جو حلال اور پاکیزہ غنیمتیں تم نے حاصل کی ہیں۔" تو اس طرح اللہ نے ان کے لیے غنیمت کو حلال کر دیا
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کا دن آیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1763
   صحيح البخارياللهم إني أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن شئت لم تعبد بعد اليوم فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك يا رسول الله فقد ألححت على ربك وهو في الدرع فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر
   صحيح البخارياللهم إني أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن تشأ لا تعبد بعد اليوم فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك يا رسول الله ألححت على ربك وهو يثب في الدرع فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر
   صحيح البخارياللهم إني أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن شئت لم تعبد فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر
   صحيح البخاريأنشدك عهدك ووعدك اللهم إن شئت لم تعبد بعد اليوم أبدا فأخذ أبو بكر بيده وقال حسبك يا رسول الله فقد ألححت على ربك وهو في الدرع فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر
   صحيح مسلماللهم أنجز لي ما وعدتني اللهم آت ما وعدتني اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد في الأرض فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه عن منكبيه فأتاه أبو بكر فأخذ رداءه فألقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه وقال يا نبي الله كفاك مناش
   جامع الترمذياللهم أنجز لي ما وعدتني اللهم آتني ما وعدتني اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد في الأرض فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه من منكبيه فأتاه أبو بكر فأخذ رداءه فألقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه فقال يا نبي الله كفاك من

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3081  
´سورۃ الانفال سے بعض آیات کی تفسیر​۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین مکہ پر) ایک نظر ڈالی، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو دس اور کچھ (کل ۳۱۳) تھے۔ پھر آپ قبلہ رخ ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیئے اور اپنے رب کو پکارنے لگے: اے میرے رب! مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا فرما دے، جو کچھ تو نے مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اسے عطا فرما دے، اے میرے رب! اگر اہل اسلام کی اس مختصر جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جا سکے گی۔‏‏‏‏ آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے دونوں ہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3081]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یاد کرو اس وقت کو جب تم اپنے رب سے فریاد رسی چاہتے تھے تو اللہ نے تمہاری درخواست قبول کر لی،
اور فرمایا:
میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا وہ پیہم یکے بعد دیگرے آتے رہیں گے،
تو اللہ نے ان کی فرشتوں سے مدد کی(الأنفال: 9) 2؎:
یعنی فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا واقعہ بدر کے دن پیش آیا۔
   حوالہ: سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3081   
------------------
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4588  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يَهْتفُ بِرََبِّه:
بلند آواز سے،
اللہ سے دعا کرنے لگے،
تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس گریہ و زاری اور دعا کو دیکھ کر مسلمان مطمئن ہو جائیں اور ان کے دل تقویت حاصل کر لیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو انہیں اطمینان ہو گیا کہ اللہ آپ کی دعا قبول فرمائے گا اور اپنا وعدہ جلد پورا فرمائے گا،
اس لیے عرض کیا،
اے اللہ کے نبی! كَفَاكَ منَا شِدَّتكَ:
آپ نے بلند آواز (نشید)
سے جو دعا فرمائی ہے،
وہ کافی ہے،
اس لیے آپ بس کریں،
خُطِمَ أَنفُهُ:
اس کی ناک پر نشان پڑ گیا۔
(2)
صناديد:
صنديد کی جمع ہے،
لیڈر،
سردار۔
(3)
هَوِيَ:
پسند کیا۔
بتاكيت:
میں رونے والی صورت بنا لوں گا،
تاکہ آپ کی موافقت ہو سکے۔
(4)
يُثخِنَ فِي الارض:
زمین میں خون بہائے۔
فوائد ومسائل:
غزوہ بدر 17 رمضان المبارک جمعہ کے دن پیش آیا اور یہ مسلمانوں کی کافروں سے باضابطہ پہلی جنگ تھی،
جس میں ہر اعتبار سے ظاہری وسائل کے لحاظ سے مسلمان کم تر تھے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اور ان کے اطمینان قلب کے لیے ایک ہزار فرشتے نازل فرمانے کی بشارت فرمائی،
تاکہ وہ ظاہری وسائل و اسباب میں فائق ہونے سے خوش ہو کر پوری جراءت و بسالت سے جنگ میں حصہ لیں،
وگرنہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے بغیر بھی ان کو فتح یاب کر سکتا تھا،
لیکن اس کی نصرت و مدد اسباب کے پردے میں آتی ہے،
اس لیے ایک فرشتہ کی بجائے،
جو ان کی تباہی کے لیے کافی تھا،
ہزار فرشتے بھیجے اور ان میں سے بعض نے باقاعدہ جنگ میں بھی حصہ لیا ہے،
جیسا کہ اس صحیح حدیث سے ثابت ہو رہا ہے،
جمہور کا یہی موقف ہے،
جب مسلمان فتح یاب ہو گئے اور ستر (70)
مشرک قید کر لیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سامنے دو صورتیں پیش کیں،
ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے،
لیکن اس صورت میں آئندہ سال اتنے ہی مسلمان شہید ہوں گے،
ان دو صورتوں میں ایک کا انتخاب دراصل مسلمانوں کا امتحان تھا کہ وہ اپنی رائے سے کس کو اختیار کرتے ہیں،
جیسا کہ ازواج مطہرات کے امتحان و آزمائش کے لیے انہیں دو صورتوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادی دی تھی،
جس کی تفصیل سورہ احزاب کی آیت،
إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا۔
میں ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے واقعہ معراج میں دودھ اور شراب اور شہد پیش کیا گیا تھا تو آپ نے صحابہ سے رائے لی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی طبعی نرم دلی اور شفقت کی بناء پر یہ رائے دی کہ یہ قیدی اپنے بھائی بند ہیں،
آپ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیں،
اس نرم سلوک اور احسان کی بنا پر ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہدایت کا راستہ کھول دے اور یہ لوگ اور ان کے اتباع اولاد مسلمان ہو کر ہمارے دست بازو بنیں اور فدیہ کے مال سے ہم اپنی جنگی ضرورتیں پوری کر لیں گے،
عام صحابہ نے بھی اس رائے کو پسند کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طبعی رحم دلی اور شفقت و صلہ رحمی کی خاطر اس رائے کو پسند کیا،
لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ یہ قیدی کفر کے امام اور کافروں کے لیڈر ہیں،
ان کو ختم کر دیا جائے تو کفر و شرک کا زور ٹوٹ جائے گا،
تمام مشرکوں پر رعب و دبدبہ قائم ہو جائے گا اور ہم کفر و شرک اور ان لوگوں سے انتہائی نفرت و بغض کا اظہار کرنے کی خاطر،
اپنے اپنے عزیز و اقارب کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں اور حضرت سعد بن معاذ نے بھی ان کی تائید کی،
لیکن فدیہ والوں کی رائے پر عمل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اس کو (تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا)
تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو سے تعبیر کیا،
یہ غلطی بظاہر ایسی تھی کہ اس پر مواخذہ ہوتا اور سخت سزا ملتی اور وہ عذاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا بھی گیا،
لیکن اس بناء پر یہ عذاب روک دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اجتہادی غلطی پر سزا نہیں دیتا،
آیت میں آمدہ تہدید و عتاب کی بناء پر مسلمان ڈر گئے اور مال غنیمت سے احتراز کرنے لگے،
اس لیے مال غنیمت کے حلال و طیب ہونے کا اعلان کر دیا گیا،
(تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر،
حاشیہ عثمانی میں دیکھئے)

   حوالہ: تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4588   
------------------