الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1066
1066. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے ایک منادی کرنے والے کو تعینات کیا جو الصلاة جامعة کا اعلان کرتا تھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور دو رکعات میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ ولید کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن نمر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے بھی امام زہری سے اسی طرح سنا ہے۔ امام زہری ؓ کہتے ہیں: میں نے حضرت عروہ ؓ سے کہا: آپ کے بھائی عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو ایسا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے جب مدینہ طیبہ میں گرہن کے موقع پر نماز پڑھی تھی تو صبح کی نماز کی طرح صرف دو رکعت ہی ادا کی تھی۔ انہوں نے کہا: ہاں، لیکن ان سے سنت میں خطا سرزد ہو گئی۔ سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے امام زہری سے جہری قراءت کے سلسلے میں ابن نمر کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1066]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات نے لفظ خسوف کی بنا پر موقف اختیار کیا ہے کہ جہری قراءت چاند گرہن کے وقت تھی، حالانکہ ایک روایت میں ہے کہ جہری قراءت کا اہتمام سورج گرہن کے وقت ہوا تھا۔
بہرحال گرہن کے وقت بآواز بلند قراءت کرنی چاہیے۔
(2)
سلیمان بن کثیر کی متابعت کو مسند ابوداود طیالسی میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کی نماز میں بآواز بلند قراءت کی تھی۔
سفیان بن حسین کی متابعت کو امام ترمذی اور علامہ طحاوی نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کسوف میں اونچی آواز سے قراءت کی تھی۔
حضرت علی ؓ سے بھی جہری قراءت کے متعلق مرفوع اور موقوف دونوں روایات مروی ہیں۔
چونکہ اس نماز کا باقاعدہ اعلان ہوتا ہے، پھر خطبہ بھی دیا جاتا ہے، اس لیے نماز عید کی طرح اس میں بآواز بلند قراءت کرنا ہی مستحب ہے۔
(فتح الباري: 709/2،710)
واللہ أعلم۔
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1066