مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3113
´مدینہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ابراہیم تیرے خلیل (گہرے دوست) اور تیرے نبی ہیں، اور تو نے مکہ کو بزبان ابراہیم حرام ٹھہرایا ہے، اے اللہ! میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، اور میں مدینہ کو اس کی دونوں کالی پتھریلی زمینوں کے درمیان کی جگہ کو حرام ٹھہراتا ہوں“ ۱؎۔ ابومروان کہتے ہیں: «لابتيها» کے معنی مدینہ کے دونوں طرف کی کالی پتھریلی زمینیں ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3113]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لابة يا حره سے مراد زمین کا ایک ایسا قطعہ ہےجس میں سیاہ رنگ کے پتھر پائے جاتے ہیں۔
(2)
مدینہ شریف کے مشرق اور مغرب میں اس قسم کے دو قطعات پائے جاتے ہیں جو مشرقی حرہ اور مغربی حرہ کے نام سے معروف ہیں۔
مشرقی حرہ کا نام حرہ واقم اور مغربی حرہ کا نام حرہ وبرہ ہے۔ (حاشيه صحيح مسلم از محمد فواد الباقي، الحج، باب فضل المدينه۔
۔
۔
۔
وبيان حدود حرمها)
مشرق ومغرب میں یہ حرم مدینہ کی حد ہیں۔
احد کے شمال میں جبل ثور اور مدینہ کے جنوب میں جبل عیر حرم مدینہ کی حد ہیں جبکہ احد پہاڑ حرم میں شامل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3113