الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1999
1999. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: جو شخص حج اور عمرے کے درمیان تمتع کرے اسے عرفہ کے دن تک روزہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن اگر قربانی نہ پاسکے اور اس نے روزے بھی نہیں رکھے تو وہ ایام منی میں روزے رکھ لے۔ ابن شہاب نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اسی طرح بیان کیا ہے۔ حضرت ابن شہاب سے بیان کرنے میں ابراہیم بن سعد نے امام مالک کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1999]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایام تشریق میں روزے رکھنے کے متعلق حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا:
ایام تشریق میں کھاؤ پیو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان دنوں روزہ چھوڑنے کا حکم دیا کرتے تھے اور روزہ رکھنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔
امام مالک فرماتے ہیں:
ان دنوں سے مراد گیارہ، بارہ اور تیرہ کے دن ہیں۔
(سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث: 2418) (2)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز نہیں، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث سے جواز معلوم ہوتا ہے۔
ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ ممانعت غیر متمتع کے لیے ہے اور جواز والی احادیث متمتع کے لیے ہیں جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی فیصلے کو اختیار کیا ہے اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان قرار دیا ہے۔
(فتح الباری: 4/309) (3)
ابراہیم بن سعد کی متابعت کو امام شافعی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اس میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
وہ متمتع ایام تشریق میں روزے رکھ لے جسے قربانی میسر نہ ہو۔
(فتح الباری: 4/309،ومسندالشافعی،حدیث: 645،طبعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت)
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1999