الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2570
2570. حضرت ابوقتادہ سلمی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے کچھ اصحاب کے ساتھ مکہ کے راستے میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے آگے تشریف فرماتھے۔ میرے علاوہ سب لوگ حالت احرام میں تھے۔ اس دوران میں انھوں نے ایک گورخر دیکھا جبکہ میں اس وقت اپنے جوتے کو پیوند لگا رہا تھا۔ انھوں نے مجھے تو نہ بتایا لیکن ان کے دل میں خواہش ضرور تھی کہ میں اسے دیکھ لوں، چنانچہ میں نے ذرا سی توجہ کی تو اسے دیکھ لیا۔ میں گھوڑے کی طرف گیا، اس پر زین رکھی اور سوار ہوگیا لیکن اپنا کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا: مجھے نیزہ اور کوڑا پکڑا دو تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!اس سلسلے میں ہم تیری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں گھوڑے سے اترا اور دونوں چیزیں لیں پھر سوار ہوگیا اور گورخر پر حملہ کرکے اسے زخمی کردیا۔ پھر میں اسے ساتھ لے آیا جبکہ وہ دم توڑچکا تھا، چنانچہ سب لوگ اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2570]
حدیث حاشیہ:
(1)
سیدنا قتادہ ؓ کے ساتھیوں نے کوڑا اور نیزہ پکڑانے سے اس لیے انکار کیا کہ وہ احرام باندھے ہوئے تھے اور احرام کی حالت میں نہ شکار کرنا درست ہے اور نہ شکار کے لیے کسی کی مدد کرنا ہی جائز ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے خود گورخر کے گوشت کی فرمائش کی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؒ سے بکری کا تحفہ لینے کی خواہش کی تھی۔
دراصل احادیث میں سوال کرنے کی سخت وعید اور مذمت بیان کی گئی ہے۔
امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ساتھیوں کے بے تکلفانہ ماحول میں کسی چیز کی فرمائش کرنا اور بات ہے، یہ اس وعید کی زد میں نہیں آتا جو احادیث میں سوال کے متعلق آئی ہے۔
دوست احباب میں تحائف لینے دینے اور بعض اوقات خود فرمائش کرنے کا ہمارے ہاں بھی عام دستور ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2570