الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3344
3344. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت علی ؓ نے نبی ﷺ کی خدمت میں (خام) سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا تو آپ نے اسے چار اشخاص میں تقسیم کردیا: اقرع بن حابس خنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فرازی، زید بن طائی جو بنو نبہان کا ایک آدمی تھا اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنو کلاب کا ایک فرد تھا۔ اس تقسیم پر قریش اور انصار غصے سے بھر گئے کہ آپ اہل نجد کے سرداروں کو عطیات دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں انھیں تالیف قلوب کے لیے دیتا ہوں۔“ اس دوران میں ایک آدمی سامنے آیا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی۔ رخسار ابھرے ہوئے، پیشانی اونچی، داڑھی گھنی اور سر منڈاہواتھا۔ اس نے کہا: اے محمد ﷺ! اللہ سے ڈریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگوں تو اور کون فرمانبرداری کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے تومجھے اہل زمین پر امین بنایا ہے لیکن تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔“ ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3344]
حدیث حاشیہ:
1۔
قبیلہ بنو تمیم کے اس نامراد انسان کو ذوالخوبصرہ کہا جاتا تھا حرقوص بن زہیر کے نام سے موسوم اور ذوالثدیہ اس کا لقب تھا۔
اس نے رسول اللہ ﷺ کے حضور تباہ و برباد کر دینے والی انتہائی ذلیل اور گھٹیا حرکت کی جسارت کی تھی۔
اس وقت بعض مصلحتوں کی بنا پر آپ نے اسے قتل کرنے سے منع فرمادیا۔
یہی شخص بعد میں خارجیوں کا سر پرست بنا اور اس نے مسلمانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا پھر حضرت علی ؓ نے اسے قتل کیا۔
2۔
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ انھیں ایسا قتل عاد کا ذکر ہے۔
واللہ أعلم۔
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3344