الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3353
3353. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ مکرم کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جو ان میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔“ لوگوں نے عرض کیا: ہم نے یہ سوال نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”سب سے زیادہ بزرگ اللہ کے نبی حضرت یوسف ؑ ہیں جو خود نبی تھے، باپ نبی، دادا نبی اور پردادابھی نبی جو اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں۔“ لوگوں نے عرض کیا: ہم نے آپ سے یہ نہیں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ”تم خاندان عرب کے متعلق پوچھتے ہو؟ ان سب سے جو زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہی اسلام میں بھی بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کر لیں۔“ ابو اسامہ اور معتمر نے عبیداللہ، سعید اور ابو ہریرہ ؓکے واسطے سے اسے نبی ﷺ سے روایت کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3353]
حدیث حاشیہ:
1۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کے پہلے جواب میں اعمال صالحہ کے شرف کی طرف اشارہ تھا۔
جب لوگوں نے اس سے انکار کیا تو آپ نے نسب صالح کے اعتبار سے جو شرف حاصل ہوتا ہے اسے بیان فرمایا۔
جب لوگوں نے اسے بھی تسلیم نہ کیا تو آپ نے وہ صفات بیان فرمائیں جو انسان میں جبلی اور فطری طورپر موجود ہوتی ہیں۔
کسب کاان میں دخل نہیں ہوتا اور لوگ ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔
پھر آپ نے دین کی فقاہت بیان کرکے حسب ونسب دونوں کو جمع کردیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہرحالت میں عالم دین کو شریف جاہل پرفوقیت حاصل ہے۔
2۔
بہرحال شرافت کی درجہ بندی یوں ہے کہ جو دور جاہلیت میں شریف النفس تھا اور اسلام لانے کے بعد بھی اس نے اپنی پیدائشی شرافت کو داغدار نہیں کیا، کیا وہ اللہ کے ہاں بلند مرتبہ ہے۔
اگر اس کے ساتھ دینی فقاہت و بصیرت بھی شامل ہوجائے تو اس کا مقام تو بہت اونچاہے، گویا سونے پر سہاگا ہے۔
البتہ بے دینی کی صورت میں شرافت نسبی کا کوئی مقام نہیں۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں صرف حسب ونسب ہی شرافت کا میعار بنا ہوا ہے خواہ وہ معاشرے میں رسہ گیرہی کیوں نہ ہو۔
واللہ المستعان۔
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3353