الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5122
5122. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ جس وقت حفصہ بنت عمر خنیس بن حذافہ ؓ کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں۔۔۔۔۔ اور خنیس ؓ نبی ﷺ کے صحابی تھے اور ان کی وفات مدنیہ طیبہ میں ہوئی تھی۔۔۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے بیان کیا کہ میں سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے پاس آیا انہیں حفصہ کے نکاح کی پیش کش کی، انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے میں غور و فکر کروں گا۔ چند دن گزر جانے کے بعد پھر میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا: میرے لیے یہ امر ظاہر ہوا ہے کہ میں ان دنوں نکاح نہ کروں۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: پھر میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے ملا تو میں نے (ان سے) کہا: اگر آپ چاہیں تو میں اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح تم سے کر دوں۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ خاموش رہے اور مجھے جواب نہ دیا۔ مجھے ان کے عدم التفات کی وجہ سے سیدنا عثمان بن عفان ؓ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5122]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد اپنی بیٹی سے نکاح کی کسی نیک مرد کو پیش کش کر سکتا ہے، اور اس میں کوئی بےعزتی اور توہین والی بات نہیں ہے۔
(2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر زیادہ ناراض ہونا اس لیے تھا کہ انھیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبت تھی اور جہاں محبت زیادہ ہو وہاں ناراضی بھی زیادہ ہوتی ہے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر معذرت کی تھی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف خاموشی اختیار کیے رکھی۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے قابل اعتماد ساتھی سے یہ ذکر کرنا جائز ہے کہ وہ فلاں عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، حالانکہ ابھی تک اسے پیغام نکاح بھی نہیں بھیجا تھا۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی تقوی شعار کو اپنی بیٹی یا بہن سے نکاح کی پیش کش کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5122