الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5639
5639. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ تھا جبکہ عصر کا وقت ہو گیا اور ہمارے پاس تھوڑے سے بچے ہوئے پانی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ اسے ایک برتن میں ڈال کر نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے اس میں اپنا دست مبارک رکھا اور انگلیاں پھیلا دیں، پھر فرمایا: ”اے وضو کرنے والو! وضو کر لو۔ یہ اللہ کی طرف سے برکت ہے۔“ میں نے دیکھا کہ پانی آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا تھا چنانچہ سب لوگوں نے اس سے وضو کیا اور اسے نوش کیا۔ میں نے اس امر کی پروا کیے بغیر کہ پیٹ میں کتنا پانی جا رہا ہے خوب پانی پیا کیونکہ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ بابرکت پانی ہے۔ (راوئ حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: اس دن آپ کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے کہا: ایک ہزار چار سو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں عمرو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5639]
حدیث حاشیہ:
(1)
پانی میں اسراف اگرچہ ممنوع ہے لیکن بابرکت اشیاء کے کھانے پینے میں اسراف ممنوع نہیں ہے۔
اسے زیادہ مقدار میں کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں اور نہ اس سے کوئی کراہت ہی کا پہلو نکلتا ہے۔
(2)
عام حالات میں پیٹ کا تیسرا حصہ پانی کے لیے ہونا چاہیے لیکن بابرکت پانی پینے میں یہ پابندی نہیں ہے کیونکہ برکت کی ضرورت سیرابی سے زیادہ ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس امر کی اطلاع تھی لیکن آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو منع نہیں کیا۔
(فتح الباري: 127/10)
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5639