الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5663
5663. حضرت اسامہ بن زیدسے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ گدھے کے پالان (جھول یا کاٹھی) پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ آپ غزوہ بدر سے پہلے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے آپ چلتے رہے کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ملے جلے لوگ مسلمان، مشرک یعنی بت پرست اور یہودی تھے۔ ان میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اُڑاؤ۔ نبی ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے۔ پھر آپ نے انہیں دعوت اسلام دی اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی نے کہا: تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق بھی ہیں تو ہماری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5663]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہو کر اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ حدیث پیش کرنے سے یہی مقصد ہے۔
(2)
حدیث میں عبداللہ بن ابی کا ذکر ضمنی طور پر آ گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ آمد سے پہلے یہ منافق اپنی سرداری کے خواب دیکھ رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے خاک میں مل گئے، اس لیے یہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آخر وقت تک اسلام کو ختم کرنے کے درپے رہا، پھر غم کے گھونٹ بھرتے بھرتے اسے موت نے آ لیا۔
اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کے وہ لائق ہے۔
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5663