الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الدِّيَاتِ
کتاب: دیتوں کے بیان میں
8. بَابُ مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهْوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ:
8. باب: جس کا کوئی قتل کر دیا گیا ہو اسے دو چیزوں میں ایک کا اختیار ہے۔
حدیث نمبر: 6880
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ حَدَّثَنَا حَرْبٌ، عَنْ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ قَتَلَتْ خُزَاعَةُ رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ بِقَتِيلٍ لَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ وَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِي أَلَا وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ لَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يَلْتَقِطُ سَاقِطَتَهَا إِلَّا مُنْشِدٌ وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا يُودَى وَإِمَّا يُقَادُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ يُقَالُ لَهُ: أَبُو شَاهٍ، فَقَالَ: اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّمَا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ" وَتَابَعَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ،عَنْ شَيْبَانَ فِي الْفِيلِ، قَالَ بَعْضُهُمْ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ: الْقَتْلَ، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: إِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ الْقَتِيلِ.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نحوی نے، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا۔ اور عبداللہ بن رجاء نے کہا، ان سے حرب بن شداد نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنی لیث کے ایک شخص (ابن اثوع) کو اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلہ میں قتل کر دیا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے (شاہ یمن ابرہہ کے) لشکر کو روک دیا تھا لیکن اس نے اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر غلبہ دیا۔ ہاں یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا اور میرے لیے بھی دن کو صرف ایک ساعت کے لیے۔ اب اس وقت سے اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی۔ (سن لو) اس کا کانٹا نہ اکھاڑا جائے، اس کا درخت نہ تراشا جائے اور سوا اس کے جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کوئی بھی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور دیکھو جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں اختیار ہے یا اسے اس کا خون بہا دیا جائے یا قصاص دیا جائے۔ یہ وعظ سن کر اس پر ایک یمنی صاحب ابوشاہ نامی کھڑے ہوئے اور کہا: یا رسول اللہ! اس وعظ کو میرے لیے لکھوا دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وعظ ابوشاہ کے لیے لکھ دو۔ اس کے بعد قریش کے ایک صاحب عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: یا رسول اللہ اذخر گھاس کی اجازت فرما دیجئیے کیونکہ ہم اسے اپنے گھروں میں اور اپنی قبروں میں بچھاتے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔ اور اس روایت کی متابعت عبیداللہ نے شیبان کے واسطہ سے ہاتھیوں کے واقعہ کے ذکر کے سلسلہ میں کی۔ بعض نے ابونعیم کے حوالہ سے «القتل‏.‏» کا لفظ روایت کا ہے اور عبیداللہ نے بیان کیا کہ یا مقتول کے گھر والوں کو قصاص دیا جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 6880]
   صحيح البخاريالله حبس عن مكة الفيل سلط عليهم رسوله والمؤمنين إنها لم تحل لأحد قبلي لا تحل لأحد بعدي إنما أحلت لي ساعة من نهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها لا يعضد شجرها لا يلتقط ساقطتها إلا منشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما يودى
   صحيح البخاريالله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين لا تحل لأحد كان قبلي أحلت لي ساعة من نهار لا تحل لأحد بعدي لا ينفر صيدها لا يختلى شوكها لا تحل ساقطتها إلا لمنشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما أن يفدى وإما أن يقيد
   صحيح البخاريلم تحل لأحد قبلي لم تحل لأحد بعدي إنها حلت لي ساعة من نهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها لا يعضد شجرها لا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد من قتل فهو بخير النظرين إما أن يعقل وإما أن يقاد أهل القتيل
   صحيح مسلمالله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين إنها لم تحل لأحد قبلي لن تحل لأحد بعدي إنها أحلت لي ساعة من النهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يخبط شوكها لا يعضد شجرها لا يلتقط ساقطتها إلا منشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين
   صحيح مسلمالله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين إنها لن تحل لأحد كان قبلي إنها أحلت لي ساعة من نهار إنها لن تحل لأحد بعدي فلا ينفر صيدها لا يختلى شوكها لا تحل ساقطتها إلا لمنشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما أن يفدى وإما أن يقتل
   بلوغ المرام‏‏‏‏إن الله حبس عن مكة الفيل وسلط عليها رسوله والمؤمنين وإنها لم تحل لاحد كان قبلي
   بلوغ المرام فمن قتل له قتيل بعد مقالتي هذه فأهله بين خيرتين : إما أن يأخذوا العقل أو يقتلوا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 112  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ . . .»
. . . وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 112]

تشریح:
یعنی اس کے اکھاڑنے کی اجازت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی سائل کی درخواست پر یہ جملہ مسائل اس کے لیے قلم بند کروا دیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ تدوین احادیث و کتابت احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے شروع ہو چکی تھی، جسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں نہایت اہتمام کے ساتھ ترقی دی گئی۔ پس جو لوگ احادیث نبوی میں ایسے شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ذخیرہ احادیث کو بعض عجمیوں کی گھڑنت بتاتے ہیں، وہ بالکل جھوٹے کذاب اور مفتری بلکہ دشمن اسلام ہیں، ہرگز ان کی خرافات پر کان نہ دھرنا چاہئیے۔ جس صورت میں «قتل» کا لفظ مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ پاک نے مکہ والوں کو قتل سے بچا لیا۔ بلکہ قتل و غارت کو یہاں حرام قرار د ے دیا۔ اور لفظ «فيل» کی صورت میں اس قصے کی طرف اشارہ ہے جو قرآن پاک کی سورۃ فیل میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سال ولادت میں حبش کا بادشاہ ابرہ نامی بہت سے ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کو گرانے آیا تھا مگر اللہ پاک نے راستے ہی میں ان کو ابابیل پرندوں کی کنکریوں کے ذریعے ہلاک کر ڈالا۔
   حوالہ: صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 112   
------------------
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6880  
6880. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنو لیث کا ایک شخص اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے لشکر کو روک دیا تھا اور وقتی طور پر اپنے رسول اور اہل ایمان کو اس پر مسلط کیا۔ آگاہ ہو! مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی صرف اس دن ایک حصے کے لیے حلال ہوا، اب اس وقت اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی ہے۔ اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور نہ اس کا کوئی درخت ہی کاٹا جائے، اعلان کرنے والے علاوہ کوئی دوسرا اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائے۔ جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے: چاہے تو قصاص لے لے یا دیت قبول کر لے۔ اس دوران میں ابو شاہ نامی ایک یمنی کھڑا ہوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6880]
حدیث حاشیہ:
حرب بن شداد کے ساتھ اس حدیث کو عبیداللہ بن موسیٰ نے بھی شیبان سے روایت کیا۔
اس میں بھی ہاتھی کا ذکر ہے۔
بعض لوگوں نے ابونعیم سے فیل کے بدلے قتل کا لفظ روایت کیا ہے اور عبیداللہ بن موسی نے اپنی روایت میں (رواہ مسلم)
و امایقاد کے بدلے یوں کہا إما أن يعطی الدية و إما أن یقاد أهل القتیل۔
   حوالہ: صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6880   
------------------
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 604  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی فتح دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر غلبہ عطا فرمایا اور تحقیق مجھ سے پہلے مکہ کسی پر حلال نہ تھا مگر میرے لئے دن کی ایک گھڑی حلال کر دیا گیا ہے اور یقیناً میرے بعد یہ کسی کیلئے حلال نہیں ہو گا یعنی نہ اس کا شکار بھگایا جائے، نہ اس کا کوئی کانٹے دار درخت کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز سوائے شناخت کرنے والے کے کسی پر حلال ہے اور جس کا کوئی آدمی مارا جائے وہ دو بہتر سوچے ہوئے کاموں میں سے ایک کام میں اختیار رکھتا ہے۔ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے سوا، کیونکہ اسے ہم اپنی قبروں اور چھتوں میں رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے اذخر کے، (یعنی اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔) (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 604]
604 لغوی تشریح:
«حَبَسَ» یعنی روکا اور منع کیا۔
«الْفِيل» ہاتھی جسے اور ابرہہ کا لشکر بیت اللہ کو گرانے کے لیے لے کر آیا تھا، اس کا قصہ مشہور و معروف ہے۔
«وَسَلَّطْ» یہ «تسليط» سے ماخوذ ہے۔ غلبہ کے معنی میں ہے۔
«سَاعَةً مِّنْ نَهَارِ» دن کی ایک گھڑی۔ اس سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے عصر کا وقت مراد ہے۔
«لَايُنَفَّرُ» «تنفير» سے صیغۂ مجہول ہے، یعنی بھگایا نہ جائے۔
«وَلَا يُخْتَلٰي» یہ بھی صیغۂ مجہول ہے، یعنی نہ کاٹا جائے۔
«سَاقِطَتُهَا» یعنی اس کی گری پڑی چیز۔
«أِلَّا لِمُنْشِدٍ» یہ «انشاد» سے ماخوذ ہے، یعنی وہاں گری پڑی چیز کھانے یا قبضہ کرنے کی نیت سے نہ اٹھائی جائے البتہ اسے اس نیت سے اٹھانا جائز ہے کہ اسے لوگوں میں متعارف کرایا جائے یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے اور وہ اسے حاصل کر لے۔
«قَتِيل» یعنی مقتول۔
«فَهُوَ» یعنی مقتول کا ولی۔
«بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ» یعنی ولی کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے، چاہے تو قصاص لے اور چاہے تو دیت وصول کر لے۔
«أِلّا الأِذْخِرِ» یعنی آپ یہ فرمائیں: «أِلَّا الْاِذْخِرَ» اذخر کے سوا کہ اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔ اذخر کے ہمزہ اور خا کے نیچے زیر اور دونوں کے درمیان میں ذال ساکن ہے۔ یہ چوڑے پتوں والی خشبودار گھاس ہے جسے گھروں کی چھتوں میں لکڑیوں کے اوپر رکھا جاتا تھا اور قبروں کو بند کرنے میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا اور قبر کے اوپر رکھے جانے والے پتھروں یا کچی اینٹوں کے سوراخ بند کیے جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی حرمت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ مکہ میں رہنے والوں سے لڑائی کرنا حرام ہے۔ جو اس میں داخل ہو گیا اسے گویا امن مل گیا۔ اس میں شکار اور اس کے درخت اور جڑی بوٹیاں کاٹنی حرام ہیں، نیز اس میں گری پڑی چیز اپنے استعمال کے لیے اٹھانا حرام ہے۔
   حوالہ: بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 604   
------------------
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6880  
6880. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنو لیث کا ایک شخص اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے لشکر کو روک دیا تھا اور وقتی طور پر اپنے رسول اور اہل ایمان کو اس پر مسلط کیا۔ آگاہ ہو! مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی صرف اس دن ایک حصے کے لیے حلال ہوا، اب اس وقت اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی ہے۔ اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور نہ اس کا کوئی درخت ہی کاٹا جائے، اعلان کرنے والے علاوہ کوئی دوسرا اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائے۔ جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے: چاہے تو قصاص لے لے یا دیت قبول کر لے۔ اس دوران میں ابو شاہ نامی ایک یمنی کھڑا ہوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6880]
حدیث حاشیہ:
(1)
جان بوجھ کر قتل کرنے والے سے دیت لینے میں علمائے امت کا اختلاف ہے۔
علمائے کوفہ کا موقف ہے کہ قتل عمد میں دیت صرف اس وقت ہے جب قاتل دیت دینے پر راضی ہو ورنہ قصاص ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ مقتول کے ورثاء اگر قتل عمد میں دیت کا مطالبہ کریں تو قاتل کو دیت دینے پر مجبور کیا جائے گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کی تائید میں یہ عنوان اور حدیث پیش کی ہے کہ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لیں یا دیت لیں۔
(2)
بنی اسرائیل میں قصاص ہی لازم تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دیت لینے کی سہولت دی ہے اور اسے اپنی طرف سے تخفیف قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف ہے۔
(البقرة: 2: 178)
ایک روایت میں ہے کہ مقتول کے ورثاء کو تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے:
٭قصاص لیں۔
٭معاف کر دیں۔
٭دیت پر صلح کر لیں۔
اگر کوئی چوتھی صورت نکالتا ہے تو اس کے ہاتھ روکے جا سکتے ہیں۔
(سنن أبي داود، الدیات، حدیث: 4496)
چوتھی چیز سے مراد قصاص یا دیت سے زیادہ کا مطالبہ ہے۔
   حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6880   
------------------