الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6937
6937. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ”جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔“ تو نبی ﷺ کے صحابہ کو بہت پریشانی ہوئی۔ انہوں نےکہا: ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا وہ مطلب نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ یہ تو ایسے ہے جیسے حضرت لقمان نے اپنے لخت جگر سے کہا تھا: ”اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6937]
حدیث حاشیہ:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آیت کریمہ میں ذکر کردہ ظلم کو عموم پر محمول کیا، اس لیے وہ پریشان ہوئے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس طرح کی کمی بیشی نہ ہوتی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں فرمایا کیونکہ ان کی یہ تاویل ظاہر اور لغت عرب کے اعتبار سے واضح تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ آیت کریمہ میں ظلم سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق کمی بیشی کرنا ہے، پھر اس مفہوم کی تائید کے لیے قرآن مجید کی آیت کریمہ تلاوت فرمائی جس میں لفظ ظلم اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔
(فتح الباري: 380/12)
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6937