الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:749
749. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایاکہ ہمیں نبی ﷺ نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد منبر پر تشریف لائے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”میں نے ابھی جبکہ تمہیں نماز پڑھا رہا تھا جنت اور دوزخ کو دیکھا۔ ان دونوں کی اس دیوار کے قبلے میں تصویریں بنا دیں گئی تھیں۔ میں نے آج کے دن جیسا کوئی دن نہیں دیکھا جس میں خیر اور شر دونوں جمع ہوں۔“ آپ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:749]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوران نماز میں مقتدی کی نظر کہاں ہو؟ اس میں اختلاف ہے۔
جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ سجدہ کی جگہ پر مقتدی کی نظر ہونی چاہیے کیونکہ ایسا کرنا انتہائی خشوع کی علامت ہے، البتہ امام مالک کا موقف ہے کہ مقتدی کی نظر امام کی طرف ہونی چاہیے تاکہ اسے اس کے انتقالات کا علم ہوتا رہے۔
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ واقعی مقتدی کو اپنی نظر سجدہ گاہ پر مرکوز رکھنی چاہیے، البتہ کسی ضرورت ک پیش نظر وہ امام کی طرف نظر اٹھا سکتا ہے۔
اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔
مذکورہ روایت میں اس بات کا واضح ثبوت ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
بہتر یہی ہے کہ نمازی بحالت نماز سجدہ گاہ پر نظر رکھے لیکن اگر وہ امام کو دیکھے اور سجدے پر نظر نہ رکھے تو اس کی گنجائش ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بحالت نماز اپنے سامنے کی طرف دیکھا اور سجدہ گاہ کی طرف نہ دیکھا۔
اس پر مقتدی کو قیاس کیا جائے گا۔
(2)
امام بخاری ؒ کی مراد سجدہ گاہ کو دیکھنے کے لزوم کی نفی کرنا ہے۔
(3)
یہ حکم قیام کی صورت میں ہے کہ نظر سجدہ گاہ پر ہو، تاہم تشہد کی حالت میں نظر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر ہونی چاہیے، اس طرح کے اسے اٹھائے رکھے اور دعا کرے۔
(سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1161)
حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 749