ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے عمرو بن سعید سے جب وہ (ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلا ف) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہا: اے امیر! مجھے اجا زت دیں۔میں آپ کو ایک ایسا فرمان بیان کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمایا تھا۔اسے میرے دونوں کا نوں نے سنا، میرے دل نے یا د رکھا اور جب آپ نے اس کے الفا ظ بو لے تو میرے دونوں آنکھوں نے آپ کو دیکھا۔ آپ نے اللہ تعا لیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: "بلا شبہ مکہ کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے لوگوں نے نہیں۔۔کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور یو آخرت پر ایما ن رکھتا ہو حلال نہیں کہ وہ اس میں خون بہا ئے اور نہ (یہ حلال ہے کہ) کسی درخت کو کا ٹے۔اگر کوئی شخص اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑا ئی کی بنا پر رخصت نکا لے تو اسے کہہ دینا: بلا شبہ اللہ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجا زت دی تھی تمھیں اس کی اجا زت نہیں دی تھی اور آج ہی اس کی حرمت اسی طرح واپس آگئی ہے جیسے کل اس کی حرمت موجود تھی اور جو حا ضر ہے (یہ بات) اس تک پہنچا دے جو حا ضر نہیں۔اس پر ابو شریح رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: (جواب میں) عمرو نے تم سے کیا گہا؟ (کہا:) اس نے جواب دیا: اے ابو شریح!میں یہ بات تم سے زیادہ جا نتا ہوں جرم کسی نافر مان (باغی) کو خون کر کے بھا گ آنے والے کو اور چوری کر کے فرار ہو نے والے کو پناہ نہیں دیتا۔
حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ (یزید کی طرف سے گورنر تھا اور اس کے حکم سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے خلاف) مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے لشکر تیار کر کے روانہ کر رہا تھا کہ: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے، کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بیان کروں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن (مکہ میں) ارشاد فرمایا تھا، میں نے اپنے کانوں سے وہ فرمان سنا تھا، اور میرے دل و دماغ نے اسے یاد کر لیا تھا، اور جس وقت وہ فرمان آپ کی زبان مبارک سے صادر ہو رہا تھا، اس وقت میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا تھا: ”مکہ کو اللہ تعالیٰ نے محترم قرار دیا ہے، اس کی حرمت یا احترام کا فیصلہ لوگوں نے نہیں کیا، اس لیے جو انسان اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ یہاں خون ریزی کرے، اور وہ یہاں کے درختوں کو بھی نہ کاٹے، اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کو سند بنا کر رخصت کا اپنے لیے جواز نکالے، تو اس کو کہہ دو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی، اور تجھے اجازت نہیں دی ہے، اور مجھے بھی بس، اللہ تعالیٰ نے دن کے تھوڑے سے وقت کے لیے (عارضی اور وقتی) اجازت دی تھی، اور آج اس وقت اس طرح حرمت لوٹ آئی جس طرح حرمت موجود تھی، (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جو لوگ یہاں موجود ہیں، (جنہوں نے میری بات سنی ہے) وہ دوسرے غیر موجود لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں“ تو ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے دریافت کیا، آپ کو عمرو نے کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، اس نے کہا کہ: اے ابو شریح! میں یہ باتیں تم سے زیادہ جانتا ہوں، حرم کسی نافرمان کو پناہ نہیں دے سکتا، نہ ہی کسی ایسے آدمی کو جو کسی کا ناحق خون کر کے بھاگ آئے، یا کسی کا نقصان کر کے بھاگ آئے، پناہ دے سکتا ہے۔