الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب الْوَصِيَّةِ
وصیت کے احکام و مسائل
6. باب تَرْكِ الْوَصِيَّةِ لِمَنْ لَيْسَ لَهُ شيء يُوصِي فِيهِ:
6. باب: جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت کے نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 4233
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ، ثُمَّ جَعَلَ تَسِيلُ دُمُوعُهُ حَتَّى رَأَيْتُ عَلَى خَدَّيْهِ كَأَنَّهَا نِظَامُ اللُّؤْلُؤِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ، أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا، فَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهْجُرُ ".
طلحہ بن مُصرف نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: جمعرات کا دن، جمعرات کا دن کیسا تھا! پھر ان کے آنسو بہنے لگے حتی کہ میں نے ان کے دونوں رخساروں پر دیکھا گویا موتیوں کی لڑی ہو، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس شانے کی ہڈی اور دوات لاؤ۔۔ یا تختی اور دوات۔۔ میں تمہیں ایک کتاب (تحریر) لکھ دوں، اس کے بعد تم ہرگز کبھی گمراہ نہ ہو گے۔" تو لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کے زیر اثر گفتگو فرما رہے ہیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، جمعرات کا دن، جمعرات کا دن بھی کیا ہی عجیب تھا، پھر ان کے آنسو جاری ہو گئے، سعید کہتے ہیں، میں نے آنسوؤں کو ان کی رخساروں پر اس طرح دیکھا، گویا کہ وہ موتیوں کی لڑی ہے، ابن عباس نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس شانے کی ہڈی اور دوات یا تختی اور دوات لاؤ، میں تمہیں ایک تحریر لکھوا دوں، اس کے بعد تم ہرگز سرگرداں نہیں ہو گے۔ تو صحابہ نے سمجھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم داغ مفارقت دے رہے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1637
   صحيح البخاريائتوني بكتف أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أمرهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاريائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أوصاهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاريهلموا أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده فقال بعضهم إن رسول الله قد غلبه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ومنهم من يقول غير ذلك
   صحيح البخاريهلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده قال عمر إن النبي غلبه الوجع وعندكم القرآن فحسبنا كتاب الله واختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح البخاريائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع فقالوا هجر رسول الله قال دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه أوصى عند موته بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاريقوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع خرج ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله وبين كتابه
   صحيح مسلمائتوني أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعدي فتنازعوا وما ينبغي عند نبي تنازع أوصيكم بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح مسلمهلم أكتب لكم كتابا لا تضلون بعده فقال عمر إن رسول الله قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت فاختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح مسلمائتوني بالكتف والدواة أو اللوح والدواة أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فقالوا إن رسول الله يهجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 114]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .»
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
   حوالہ: صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
------------------