الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
47. باب مَنْ يَقُولُ صُمْتُ رَمَضَانَ كُلَّهُ
47. باب: یہ کہنا کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 2415
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ إِنِّي صُمْتُ رَمَضَانَ كُلَّهُ وَقُمْتُهُ كُلَّهُ". فَلَا أَدْرِي أَكَرِهَ التَّزْكِيَةَ، أَوْ قَالَ: لَا بُدَّ مِنْ نَوْمَةٍ أَوْ رَقْدَةٍ.
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے، اور پورے رمضان کا قیام کیا۔ راوی حدیث کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ممانعت خود اپنے آپ کو پاکباز و عبادت گزار ظاہر کرنے کی ممانعت کی بنا پر تھی، یا اس وجہ سے تھی کہ وہ لازمی طور پر کچھ نہ کچھ سویا ضرور ہو گا (اس طرح یہ غلط بیانی ہو جائے گی)۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2415]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الصیام 4 (2111)، (تحفة الأشراف: 11664)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/40، 41، 48، 52) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی حسن بصری مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ نسائي (2111)¤ الحسن البصري عنعن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 90

   سنن النسائى الصغرىلا يقولن أحدكم صمت رمضان ولا قمته كله
   سنن أبي داودلا يقولن أحدكم إني صمت رمضان كله وقمته كله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2415  
´یہ کہنا کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے کیسا ہے؟`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے، اور پورے رمضان کا قیام کیا۔‏‏‏‏ راوی حدیث کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ممانعت خود اپنے آپ کو پاکباز و عبادت گزار ظاہر کرنے کی ممانعت کی بنا پر تھی، یا اس وجہ سے تھی کہ وہ لازمی طور پر کچھ نہ کچھ سویا ضرور ہو گا (اس طرح یہ غلط بیانی ہو جائے گی)۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2415]
فوائد ومسائل:
قرآن مجید میں ہے: (فَلَا تُزَكُّوٓا۟ أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ ٱتَّقَىٰٓ) (النجم:32) اپنی نیکیاں اور خوبیاں مت بیان کرو، وہ (اللہ تعالیٰ) تقویٰ والوں کو خوب جانتا ہے۔
یہ حدیث ضعیف ہے۔
اس لیے اگر مقصود اپنی بڑائی کا اظہار اور اپنی پاکیزگی کا اعلان نہ ہو تو حکایت کے طور پر اس کا بیان جائز ہے۔

   حوالہ: سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2415   
------------------