● صحيح البخاري | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | الشفعة في كل مال لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح مسلم | الشفعة في كل شرك في أرض أو ربع أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يعرض على شريكه فيأخذ أو يدع إن أبى فشريكه أحق به حتى يؤذنه |
● صحيح مسلم | الشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة أو حائط لا يحل له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إذا باع ولم يؤذنه فهو أحق به |
● جامع الترمذي | الجار أحق بشفعته ينتظر به إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● جامع الترمذي | من كان له شريك في حائط فلا يبيع نصيبه من ذلك حتى يعرضه على شريكه |
● سنن أبي داود | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● سنن أبي داود | الشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه |
● سنن أبي داود | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● سنن النسائى الصغرى | الشفعة والجوار |
● سنن النسائى الصغرى | الشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة وحائط لا يحل له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إن باع ولم يؤذنه فهو أحق به |
● سنن النسائى الصغرى | الشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه |
● سنن ابن ماجه | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● سنن ابن ماجه | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● المعجم الصغير للطبراني | الشفعة في كل شرك في ربع أو حائط لا يصلح له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه فيأخذ أو يدع |
● بلوغ المرام | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● مسندالحميدي | أيكم كانت له أرض أو نخل فلا يبعها حتى يعرضها على شريكه |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔
(2)
یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔
(3)
جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
(4)
بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
حوالہ: سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2499
------------------
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے،
اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ ”جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا“۔
حوالہ: سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1369
------------------