الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
52. باب مَنْ قَالَ فِيهِ وَلِعَقِبِهِ
52. باب: کوئی چیز کسی کو دے کر یہ کہنا کہ یہ چیز تمہاری اور تمہارے اولاد کے لیے ہے۔
حدیث نمبر: 3553
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ، فَإِنَّهَا لِلَّذِي يُعْطَاهَا لَا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا، لِأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو عمر بھر کے لیے کوئی چیز دے دی گئی اور اس کے بعد اس کے آنے والوں کے لیے بھی کہہ دی گئی ہو تو وہ عمریٰ اس کے اور اس کی اولاد کے لیے ہے، جس نے دیا ہے اسے واپس نہ ہو گی، اس لیے کہ دینے والے نے اس انداز سے دیا ہے جس میں وراثت شروع ہو گئی ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3553]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (3550)، (تحفة الأشراف: 3148) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: عمری کرنے والے کو اب واپس لینے کا کوئی حق نہیں ہو گا اور نہ ہی اس کا کوئی عذر مقبول ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1625)

   صحيح البخاريالعمرى أنها لمن وهبت له
   صحيح مسلمأعمر عمرى له ولعقبه فهي له بتلة لا يجوز للمعطي فيها شرط ولا ثنيا
   صحيح مسلمأمسكوا عليكم أموالكم ولا تفسدوها فإنه من أعمر عمرى فهي للذي أعمرها حيا وميتا ولعقبه
   صحيح مسلمالعمرى ميراث لأهلها
   صحيح مسلممن أعمر رجلا عمرى له ولعقبه فقد قطع قوله حقه فيها وهي لمن أعمر ولعقبه
   صحيح مسلمالعمرى لمن وهبت له
   صحيح مسلمالعمرى التي أجاز رسول الله أن يقول هي لك ولعقبك فأما إذا قال هي لك ما عشت
   صحيح مسلمأيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه للذي أعطيها لا ترجع إلى الذي أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث
   صحيح مسلمالعمرى لصاحبها
   صحيح مسلمقضى بالعمرى للوارث
   صحيح مسلمالعمرى جائزة
   صحيح مسلمأيما رجل أعمر رجلا عمرى له ولعقبه
   جامع الترمذيأيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذي أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث
   جامع الترمذيالعمرى جائزة لأهلها الرقبى جائزة لأهلها
   سنن أبي داودلا ترقبوا ولا تعمروا فمن أرقب شيئا أعمره فهو لورثته
   سنن أبي داودمن أعمر عمرى فهي له ولعقبه يرثها من يرثه من عقبه
   سنن أبي داودالعمرى جائزة لأهلها الرقبى جائزة لأهلها
   سنن أبي داودأيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذي أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث
   سنن أبي داودالعمرى لمن وهبت له
   سنن النسائى الصغرىقضى بالعمرى أن يهب الرجل للرجل ولعقبه الهبة ويستثني إن حدث بك حدث وبعقبك فهو إلي وإلى عقبي إنها لمن أعطيها ولعقبه
   سنن النسائى الصغرىالرقبى لمن أرقبها
   سنن النسائى الصغرىالعمرى جائزة لأهلها الرقبى جائزة لأهلها
   سنن النسائى الصغرىمن أعمر شيئا فهو له حياته ومماته
   سنن النسائى الصغرىمن أعمر عمرى فهي له ولعقبه يرثها من يرثه من عقبه
   سنن النسائى الصغرىأمسكوا عليكم يعني أموالكم لا تعمروها فإنه من أعمر شيئا فإنه لمن أعمره حياته ومماته
   سنن النسائى الصغرىالعمرى لمن وهبت له
   سنن النسائى الصغرىالعمرى لمن وهبت له
   سنن النسائى الصغرىأمسكوا عليكم أموالكم ولا تعمروها فمن أعمر شيئا حياته فهو له حياته وبعد موته
   سنن النسائى الصغرىالعمرى جائزة
   سنن النسائى الصغرىمن أعمر رجلا عمرى له ولعقبه فقد قطع قوله حقه وهي لمن أعمر ولعقبه
   سنن النسائى الصغرىأيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذي أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث
   سنن النسائى الصغرىالعمرى جائزة
   سنن النسائى الصغرىالعمرى لمن أعمرها هي له ولعقبه يرثها من يرثه من عقبه
   سنن النسائى الصغرىأيما رجل أعمر رجلا عمرى له ولعقبه قال قد أعطيتكها وعقبك ما بقي منكم أحد فإنها لمن أعطيها وإنها لا ترجع إلى صاحبها من أجل أنه أعطاها عطاء وقعت فيه المواريث
   سنن النسائى الصغرىفيمن أعمر عمرى له ولعقبه فهي له بتلة لا يجوز للمعطي منها شرط ولا ثنيا
   سنن النسائى الصغرىمن أعمر رجلا عمرى له ولعقبه فإنها للذي أعمرها يرثها من صاحبها الذي أعطاها ما وقع من مواريث الله وحقه
   سنن النسائى الصغرىالعمرى لمن أعمرها هي له ولعقبه يرثها من يرثه من عقبه
   سنن النسائى الصغرىلا ترقبوا ولا تعمروا فمن أرقب شيئا أعمر شيئا فسبيله سبيل الميراث
   سنن ابن ماجهالعمرى جائزة لمن أعمرها الرقبى جائزة لمن أرقبها
   سنن ابن ماجهمن أعمر رجلا عمرى له ولعقبه فقد قطع قوله حقه فيها فهي لمن أعمر ولعقبه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمايما رجل اعمر عمرى له ولعقبه: فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذى اعطاها لانه اعطى عطاء وقعت فيه المواريث
   بلوغ المرام العمرى لمن وهبت له
   مسندالحميديفقضى بالعمرى للوارث
   مسندالحميديلا ترقبوا ولا تعمروا، فمن أرقب شيئا أو أعمره فهو سبيل الميراث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 282  
´عمریٰ کا بیان`
«. . . 21- عن أبى سلمة عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه: فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذى أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث . . .»
. . . سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو عمریٰ (عمر بھر کے لئے کسی چیز کا تحفہ) دیا جائے کہ یہ اس کا اور اس کے وارثوں کا حق ہے تو جسے عمریٰ ملا اسی کا ہو جائے گا اور دینے والے کی طرف واپس نہیں لوٹے گا کیونکہ اس نے اس طرح دیا ہے کہ اس میں وارثت کے احکام جاری ہو گئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 282]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 756/2 ض 1517، ك 36 ب 37 ح 43، التمهيد 112/7، الاستذكار: 1446، و أخرجه مسلم فواد عبدالباقی ترقیم 1625، دارالسلام 4188، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمریٰ کو جائز رکھا ہے وہ یہ ہے کہ عمریٰ دینے والا کہے: یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔ اگر وہ یہ کہے کہ یہ تیرے لئے ہے جتنا عرصہ تو زندہ رہے تو یہ عمریٰ دینے والے کے پاس واپس لوٹ جائے گا۔ امام زہری بھی اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ [صحيح مسلم 1265/23، وترقيم دارالسلام: 4191]
➋ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما نے زید بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو ایک گھر عمر بھر کے لئے دیا۔ جب زید رضی اللہ عنہ کی بیٹی فوت ہو گئی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے وہ گھر واپس لے لیا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ (بہن کے وارث ہونے کی وجہ سے) یہ گھر ان کا ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1519 وسنده صحيح]
➌ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو اسی بات پر پایا ہے کہ وہ اپنے امول کے بارے میں اور جو انہیں ملتا شرطوں کی پابندی کرتے تھے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح]
➍ امام مالک فرماتے تھے: ہمارے ہاں (مدینے میں) اسی پر عمل ہے کہ عمریٰ، عمریٰ دینے والے کو لوٹ جاتا ہے بشرطیکہ وہ یہ نہ کہے کہ یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح]
   حوالہ: موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 21   
------------------
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2383  
´رقبی کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو عمریٰ دیا گیا، اور رقبیٰ اس شخص کا ہو جائے گا جس کو رقبیٰ دیا گیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2383]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رقبٰی کامطلب یہ ہےکہ میں تمھیں مثلاً:
یہ مکان دیتا ہوں۔
اگر تم پہلے فوت ہوئے تومکان مجھے واپس مل جائے گا اور اگرمیں پہلے فوت ہوا تومکان تمھارا رہے گا۔

(2)
عمریٰ اور رقبٰی میں فرق یہ ہےکہ عمرٰی میں صرف لینے والے کی عمر کا لحاظ ہوتا تھا کہ جب تک وہ زندہ رہے اس مکان میں رہے گا خواہ دینے والے سےپہلے فوت ہو یا بعد میں۔
جب بھی لینے والا فوت ہوگا، مکان دینے والے کو یا اس کے وارثوں کوواپس مل جائے گا۔
رقبیٰ میں یہ شرط ہوتی تھی کہ صرف اس صورت میں واپس ملے گا، اگر لینے والا پہلے فوت ہو۔
اگر دینے والا پہلے فوت ہوتو مکان لینے والے ہی کا ہو جاتا تھا۔

(3)
عمرٰی اوررقبٰی دونوں کا رواج عرب میں اسلام سے پہلے موجود تھا۔
اسلام میں ان دونوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

(4)
ہبہ کرنا جائز ہے۔
اگر عمرٰی یا رقبٰی والی شرط رکھ کی کسی کوکچھ دیا جائے تووہ ہبہ ہی شمار ہوگا اوریہ شرط خلاف شریعت ہونےکی وجہ سے کالعدم ہو گی۔

(5)
اگر کوئی شخص کسی غریب کی مدد کرناچاہتا ہےاوریہ بھی چاہتا ہے کہ مکان وغیرہ اس کی ملکیت میں رہے تو اسے عاریتاً کچھ مدت کےلیے دینا چاہیے۔
مدت ختم ہونے پر ضرورت محسوس کی جائے تومدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
   حوالہ: سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2383   
------------------
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1351  
´رقبیٰ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہے اور رقبیٰ ۱؎ بھی جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1351]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رقبیٰ رقب سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔
اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔
موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہوگی۔
واہب کو بھی نہیں لوٹے گی،
جیسے عمریٰ میں ہے۔
رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی،
تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی،
اور اگر میں مر گیا تو تمہاری ہی رہے گی،
پھر تم مرجاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔
اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتاتھا۔
   حوالہ: سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1351   
------------------
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3556  
´کوئی چیز کسی کو دے کر یہ کہنا کہ یہ چیز تمہاری اور تمہارے اولاد کے لیے ہے۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رقبیٰ اور عمریٰ نہ کرو جس نے رقبیٰ اور عمریٰ کیا تو یہ جس کو دیا گیا ہے اس کا اور اس کے وارثوں کا ہو جائے گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3556]
فوائد ومسائل:
فائدہ: (رقبیٰ) میں اس انداز سے ہدیہ دیا جاتا ہے۔
کہ کہے جیتے جی یہ چیز استعمال کرتے رہو۔
اگر تو پہلے فوت ہوگیا تو مجھے واپس ہوگی۔
ورنہ تیری ہوئی۔
بلاشبہ اس قدر طویل مدت تک ایک چیز پر متصرف رہنے کی وجہ سے انسان اس سے مانوس ہوجاتا ہے۔
جسے بعد ازاں واپس کرنا فتنے کا باعث بنتا ہے۔
اس لئے یا تو ہدیہ کلی طور پردے دینا چاہیے یا پھر مناسب مدت کے بعد واپس لے لے۔
بنا بریں عمریٰ یا رقبیٰ کے نام سے جو ہدیہ دیا جائے گا۔
وہ ہمیشہ کےلئے موہوب لہ کا ہوجائےگا۔
راحج مذہب یہی ہے۔
   حوالہ: سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3556   
------------------