الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
7. بَابُ : مَا جَاءَ فِي «صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ»
7. باب: چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ توڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1655
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَصُومُوا ثَلَاثِينَ يَوْمًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو، اور جب چاند دیکھو تو روزہ توڑ دو، اگر بادل آ جائے تو تیس روزے پورے کرو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1655]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصوم 2 (1081)، (تحفة الأشراف: 13102)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 11 (1906)، سنن الترمذی/الصوم 2 (684)، سنن النسائی/الصیام 7 (2120)، مسند احمد (2/ 259، 263، 28، 287، 415، 422، 430، 438، 454، 456، 469، 497)، سنن الدارمی/الصوم 2 (1767) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاريصوموا لرؤيته أفطروا لرؤيته إن غبي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين
   صحيح مسلمإذا رأيتم الهلال فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فصوموا ثلاثين يوما
   صحيح مسلمإذا رأيتموه فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن أغمي عليكم فعدوا ثلاثين
   صحيح مسلمصوموا لرؤيته أفطروا لرؤيته إن غمي عليكم الشهر فعدوا ثلاثين
   صحيح مسلملا تقدموا رمضان بصوم يوم ولا يومين إلا رجل كان يصوم صوما فليصمه
   صحيح مسلمصوموا لرؤيته أفطروا لرؤيته إن غمي عليكم فأكملوا العدد
   جامع الترمذيلا تقدموا الشهر بيوم ولا بيومين إلا أن يوافق ذلك صوما كان يصومه أحدكم صوموا لرؤيته و أفطروا لرؤيته فإن غم عليكم فعدوا ثلاثين ثم أفطروا
   جامع الترمذيلا تقدموا شهر رمضان بصيام قبله بيوم أو يومين إلا أن يكون رجل كان يصوم صوما فليصمه
   سنن أبي داودلا تقدموا صوم رمضان بيوم ولا يومين إلا أن يكون صوم يصومه رجل فليصم ذلك الصوم
   سنن النسائى الصغرىالشهر يكون تسعة وعشرين ويكون ثلاثين إذا رأيتموه فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فأكملوا العدة
   سنن النسائى الصغرىصوموا لرؤيته أفطروا لرؤيته إن غم عليكم فاقدروا ثلاثين
   سنن النسائى الصغرىإذا رأيتموه فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فعدوا ثلاثين
   سنن النسائى الصغرىصوموا لرؤيته أفطروا لرؤيته إن غم عليكم الشهر فعدوا ثلاثين
   سنن النسائى الصغرىلا تقدموا الشهر بيوم أو اثنين إلا رجل كان يصوم صياما فليصمه
   سنن النسائى الصغرىإذا رأيتم الهلال فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فصوموا ثلاثين يوما
   سنن النسائى الصغرىلا تقدموا قبل الشهر بصيام إلا رجل كان يصوم صياما أتى ذلك اليوم على صيامه
   سنن ابن ماجهإذا رأيتم الهلال فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فصوموا ثلاثين يوما
   سنن ابن ماجهعن تعجيل صوم يوم قبل الرؤية
   سنن ابن ماجهلا تقدموا صيام رمضان بيوم ولا بيومين إلا رجل كان يصوم صوما فيصومه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1650  
´رمضان سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت اگر کوئی شخص پہلے سے روزہ رکھتا چلا آیا ہو تو جائز ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، الا یہ کہ کوئی آدمی پہلے سے روزے رکھ رہا ہو تو وہ اسے رکھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1650]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رمضان شروع ہونے سے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی ایک صورت شک کا روزہ ہے۔
جس کی تفصیل گزشتہ باب میں بیان ہوئی یعنی جس دن مطلع ابر آلود ہونے یا کسی اور وجہ سے چاند نظر آنے کی شرعی گواہی نہ مل سکی ہو۔
اور لوگوں کو اس کی بابت شک ہو کہ تیس شعبان ہے۔
یا یکم رمضان تو اس دن اس نیت سے روزہ رکھنا کہ اگر بعد میں ثابت ہوگیا کہ رمضان شروع ہوچکا تھا تو یہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا ورنہ نفلی روزہ ہوجائے گا۔
یہ صورت جائز نہیں۔

(2)
رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ رمضان شروع نہ ہونے کا یقینی علم ہونے کے باوجود روزہ رکھا جائے اس طرح نفل اور فرض کو باہم ملا دیا جائے تو یہ بھی جائز نہیں بلکہ یہ عمل ظاہری طور پر فرضی عبادت میں اضافے سے مشابہ ہے۔

(3)
رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی تیسری صورت یہ ہے مثلاً ایک شخص کا معمول سنت کے مطابق سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا ہے۔
اتفاقاً 29 یا 30 شعبان کو سوموار یا جمعرات کا دن تھا اور اس سے اگلے دن یکم رمضان ہوگیا۔
تو یہ روزہ رمضان سے پہلے اس سے متصل ہے۔
یا کسی کے ذمے قضاء وغیرہ کے روزے تھے۔
وہ 29 یا 30 شعبان کو ختم ہوئے۔
ان صورتوں میں یا ایسی ہی کسی اور صورت میں اس کا ارادہ رمضان کے ساتھ دوسرے روزے ملانے کا نہیں تھا بلکہ اتفاقاً یہ روزے رمضان کے روزوں سے آ ملے۔
تو یہ صورت جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
   حوالہ: سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1650   
------------------
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 684  
´رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک دو روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ماہ (رمضان) سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال کی نیت سے) روزے نہ رکھو ۱؎، سوائے اس کے کہ اس دن ایسا روزہ آ پڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو ۲؎ اور (رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہو جائے تو مہینے کے تیس دن شمار کر لو، پھر روزہ رکھنا بند کرو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 684]
اردو حاشہ:
1؎:
اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ فرض روزے نفلی روزوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائیں اور کچھ لوگ انھیں فرض نہ سمجھ بیٹھیں،
لہذا تحفظ حدود کے لیے نبی اکرم ﷺ نے جانبین سے روزہ منع کر دیا کیونکہ امم سابقہ میں اس قسم کے تغیر و تبدل ہوا کرتے تھے جس سے زیادتی فی الدین کی راہ کھلتی تھی،
اس لیے اس سے منع کر دیا۔

2؎:
مثلاً پہلے سے جمعرات یا پیر یا ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول ہو اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آ جائے تو اس کا روزہ رکھا جائے کہ یہ استقبال رمضان میں سے نہیں ہے۔
   حوالہ: سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 684   
------------------
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2335  
´شعبان کے روزے رکھتے ہوئے ماہ رمضان میں داخل ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، ہاں اگر کوئی آدمی پہلے سے روزہ رکھتا آ رہا ہے تو وہ ان دنوں کا روزہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2335]
فوائد ومسائل:
(1) شعبان کو رمضان کے ساتھ ملانے کا مفہوم یہ ہے کہ شعبان میں روزے رکھے حتی کہ رمضان شروع ہو جائے۔

(2) شریعت کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ عبادت اور عادت میں فرق کیا جانا چاہیے، اس لیے کہ اگر کسی نے یہ عادت بنائی ہو کہ وہ سوموار اور جمعرات کو مسنون روزے رکھتا ہو یا اتفاقا کوئی نذر مان لی یا کوئی قضا کا روزہ باقی ہو تو اس کے لیے رخصت ہے کہ رمضان شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھ لے۔

   حوالہ: سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2335   
------------------