الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن نسائي
كتاب الجنائز
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
117. بَابُ : أَرْوَاحِ الْمُؤْمِنِينَ
117. باب: مومنوں کی روحوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2080
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يُكَذِّبَنِي، وَشَتَمَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَشْتُمَنِي، أَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ , فَقَوْلُهُ: إِنِّي لَا أُعِيدُهُ كَمَا بَدَأْتُهُ، وَلَيْسَ آخِرُ الْخَلْقِ بِأَعَزَّ عَلَيَّ مِنْ أَوَّلِهِ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ , فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا، وَأَنَا اللَّهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي كُفُوًا أَحَدٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ مجھے جھٹلانا اس کے لیے مناسب نہ تھا، ابن آدم نے مجھے گالی دی حالانکہ مجھے گالی دینا اس کے لیے مناسب نہ تھا، رہا اس کا مجھے جھٹلانا تو وہ اس کا (یہ) کہنا ہے کہ میں اسے دوبارہ پیدا نہیں کر سکوں گا جیسے پہلی بار کیا تھا، حالانکہ آخری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ دشوار مشکل نہیں، اور رہا اس کا مجھے گالی دینا تو وہ اس کا (یہ) کہنا ہے کہ اللہ کے بیٹا ہے، حالانکہ میں اللہ اکیلا اور بے نیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا، نہ مجھے کسی نے جنا، اور نہ کوئی میرا ہم سر ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2080]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 13869)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/بدء الخلق 1 (3193)، وتفسیر سورة الصمد 1 (4974)، مسند احمد 2/317، 350، 394 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاريشتمني ابن آدم وما ينبغي له أن يشتمني يكذبني وما ينبغي له أما شتمه فقوله إن لي ولدا وأما تكذيبه فقوله ليس يعيدني كما بدأني
   صحيح البخاريكذبني ابن آدم ولم يكن له ذلك شتمني ولم يكن له ذلك فأما تكذيبه إياي فقوله لن يعيدني كما بدأني وليس أول الخلق بأهون علي من إعادته وأما شتمه إياي فقوله اتخذ الله ولدا وأنا الأحد الصمد لم ألد ولم أولد ولم يكن لي كفئا أحد
   صحيح البخاريكذبني ابن آدم ولم يكن له ذلك شتمني ولم يكن له ذلك أما تكذيبه إياي أن يقول إني لن أعيده كما بدأته وأما شتمه إياي أن يقول اتخذ الله ولدا وأنا الصمد الذي لم ألد ولم أولد ولم يكن لي كفؤا أحد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد
   سنن النسائى الصغرىكذبني ابن آدم ولم يكن ينبغي له أن يكذبني شتمني ابن آدم ولم يكن ينبغي له أن يشتمني أما تكذيبه إياي فقوله إني لا أعيده كما بدأته وليس آخر الخلق بأعز علي من أوله وأما شتمه إياي فقوله اتخذ الله ولدا وأنا الله الأحد الصمد لم ألد ولم أولد ولم يكن لي كفوا أحد
   صحيفة همام بن منبهكذبني عبدي ولم يكن ذلك له شتمني عبدي ولم يكن ذلك له أما تكذيبه إياي أن يقول لن يعيدنا كما بدأنا وأما شتمه إياي أن يقول اتخذ الله ولدا وأنا الصمد لم ألد ولم أولد ولم يكن لي كفوا أحد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2080  
´مومنوں کی روحوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ مجھے جھٹلانا اس کے لیے مناسب نہ تھا، ابن آدم نے مجھے گالی دی حالانکہ مجھے گالی دینا اس کے لیے مناسب نہ تھا، رہا اس کا مجھے جھٹلانا تو وہ اس کا (یہ) کہنا ہے کہ میں اسے دوبارہ پیدا نہیں کر سکوں گا جیسے پہلی بار کیا تھا، حالانکہ آخری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ دشوار مشکل نہیں، اور رہا اس کا مجھے گالی دینا تو وہ اس کا (۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2080]
اردو حاشہ:
(1) آدم کا بیٹا کہنے کا مقصد، انسان کو اس کی اصلیت یاد دلانا ہے کہ اسے شرم آنی چاہیے، وہ مٹی سے بن کر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے انکار کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کو اپنے جیسا سمجھتا ہے۔
(2) میری تکذیب یعنی میری قدرت کی تکذیب، نیز جب قدرت کی تکذیب کر دی تو گویا ذات ہی کی تکذیب کر دی۔
(3) گالی جو چیز کسی کے لائق نہ ہو، اس کی طرف نسبت کرنا گالی ہی ہے، جیسے کسی غیرشادی شدہ کی طرف اولاد کی نسبت کی جائے۔
   حوالہ: سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2080   
------------------