الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن نسائي
كتاب المزارعة
کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
0. بَابُ :
0. باب: (بٹائی کی دستاویز)
حدیث نمبر: 3959
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَا وَاللَّهِ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْهُ، إِنَّمَا كَانَا رَجُلَيْنِ اقْتَتَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كَانَ هَذَا شَأْنُكُمْ فَلَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ". فَسَمِعَ قَوْلَهُ:" لَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرمائے۔ اللہ کی قسم! میں یہ حدیث ان سے زیادہ جانتا ہوں، دو آدمی جھگڑ پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا یہ حال ہے تو تم کھیتوں کو کرائے پر مت دیا کرو، تو رافع نے آپ کا صرف یہ قول سن لیا کہ کھیتوں کو کرائے پر نہ دیا کرو۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3959]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/البیوع 31 (3390)، سنن ابن ماجہ/ الرہون 10(2461)، (تحفة الأشراف: 3730)، مسند احمد (5/182، 187) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابو عبیدة‘‘ لین الحدیث ہیں اور ’’الولید بن ابی الولید‘‘ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن النسائى الصغرىإن كان هذا شأنكم فلا تكروا المزارع
   سنن أبي داودلا تكروا المزارع
   سنن ابن ماجهإن كان هذا شأنكم فلا تكروا المزارع
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3959 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3959  
اردو حاشہ:
(1) گویا اس دور کی مروجہ بٹائی کو روکنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ تنازعات کا باعث تھی۔ اور آپ جھگڑے کو سخت ناپسند فرماتے تھے‘ لہٰدا اگر بٹائی کی ایسی صورت ہو جو تنازع اور جھگڑے کا سبب نہ بنے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آج کل بٹائی کا رواج ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔
(2) امام نسائی رحمہ اللہ نے بٹائی کے بارے میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت کو مختلف اسانید کے ساتھ تفصیل سے نقل فرمایا ہے تاکہ تمام جزئیات معلوم ہوجائیں۔ ان تمام روایات کو پڑھنے سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو کتاب المزارعۃ کے شروع میں ہے‘ نیز احادیث: 3892‘ 3893‘ 3898‘ 3904‘ 3921‘ 3925‘ 3933 اور 3943 میں متفرق طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض مختصر احادیث غلط فہمی کا موجب بنتی ہیں مگر یہ مسلمہ ضابطہ ہے کہ فتویٰ کی بنیاد کوئی ایک آدھ روایت نہیں بن سکتی بلکہ اس مسئلے سے متعلق تمام وارد شدہ احادیث کو ملا کر نتیجہ نکالا جائے اور پھر اس کی روشنی میں مختلف روایات کو حل کیا جائے۔
(3) سابقہ تفصیلی روایات سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت جو اس باب میں مدار ہے‘ سخت اضطراب کی حامل ہے۔ سند کے لحاظ سے بھی اور متن کے لحاظ سے بھی لیکن تطبیق ممکن ہے‘ لہٰذا روایت اصلاً صحیح ہے۔ اضطراب اس وقت روایت کی صحت کے خلاف ہوتا ہے جب اس کا حل ممکن نہ ہو۔ مذکورہ بالا دستاویز اس صورت میں ہے جب بیج اور اخراجات مالک زمین کے ذمے طے کرلیے گئے ہوں اور پیداوار میں 1:3 کی نسبت طے کرلی گئی ہو لیکن ضروری نہیں کہ ہر بٹائی میں ایسے ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیج اور اخراجات دونوں کے ذمے ہوں اور حصہ نصف نصف ہو جیسے کہ ہمارے یہاں رواج ہے۔ یا بیج اور اخراجات سب مزارع کے ذمے ہوں اور ا سکا حصہ پیداور میں مالک زمین سے زیادہ ہو۔ غرض وہ جن شرائط پر بھی اتفاق کرلیں‘ وہی معتبر ہوگی بشرطیکہ ان میں کسی ایک فریق پر ظلم یا دباؤ نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3959   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3390  
´زمین کا ٹھیکا`
«. . . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كَانَ هَذَا شَأْنَكُمْ، فَلَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں ایسے ہی (یعنی لڑتے جھگڑتے) رہنا ہے تو کھیتوں کو بٹائی پر نہ دیا کرو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ: 3390]
فقہ الحدیث
↰ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے تھے کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کے کرائے والی حدیث میں ممانعت کو مطلق سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز ہے، اسی لیے ان سے حدیث سن کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ٹھیکے کو ترک کر دیا تھا، لیکن ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بھی اس حدیث کی ممانعت کو ظلم و زیادتی والی صورتوں کے ساتھ خاص سمجھتے تھے، نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کو وہ بھی جائز سمجھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی یہ حدیث مطلق نہیں اور ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز نہیں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 22، حدیث/صفحہ نمبر: 39   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3390  
´مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے قسم اللہ کی میں اس حدیث کو ان سے زیادہ جانتا ہوں (واقعہ یہ ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصار کے دو آدمی آئے، پھر وہ دونوں جھگڑ بیٹھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں ایسے ہی (یعنی لڑتے جھگڑتے) رہنا ہے تو کھیتوں کو بٹائی پر نہ دیا کرو۔‏‏‏‏ مسدد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے آپ کی اتنی ہی بات سنی کہ زمین بٹائی پر نہ دیا کرو (موقع و محل اور انداز گفتگو پر دھیان نہیں دیا)۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3390]
فوائد ومسائل:
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی معاملے میں اخفا الجھائو۔
یا دھوکے اور ضرر کی کیفیت تنازع پیدا کرتی ہے۔
اس لئے اس سے بچنے کےلئے مزارعت میں معاملہ کھلا شفاف اور واضح اور شریعت کی شرائط کے مطابق ہونا چاہیے۔
یا پھر سرے سے یہ معاملہ کیا ہی نہ جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3390