الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن نسائي
كتاب آداب القضاة
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
20. بَابُ : حُكْمِ الْحَاكِمِ فِي دَارِهِ
20. باب: حاکم اپنے گھر میں رہ کر بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 5410
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ عَلَيْهِ , فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا , فَكَشَفَ سِتْرَ حُجْرَتِهِ , فَنَادَى:" يَا كَعْبُ"، قَالَ: لَبَّيْكَ , يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ هَذَا" , وَأَوْمَأَ إِلَى الشَّطْرِ، قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ، قَالَ:" قُمْ فَاقْضِهِ".
کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے اپنے قرض کا جو ان کے ذمہ تھا تقاضا کیا، ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی دیں، آپ اپنے گھر میں تھے، چنانچہ آپ ان کی طرف نکلے، پھر اپنے کمرے کا پردہ اٹھایا اور پکارا: کعب! وہ بولے: حاضر ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اتنا قرض معاف کر دو اور آپ نے آدھے اشارہ کیا۔ کہا: میں نے معاف کیا، پھر آپ نے (ابن ابی حدرد سے) کہا: اٹھو اور قرض ادا کرو۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5410]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 71 (457)، 73 (471)، الخصومات 4 (2418)، 9 (2424)، الصلح 10 (2706)، 14 (2710)، صحیح مسلم/البیوع 25 (المساقاة4) (1558)، سنن ابی داود/الأقضیة (3595)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 18 (2429)، (تحفة الأشراف: 11130)، مسند احمد (6/390)، سنن الدارمی/البیوع 49 (2629) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاريأخذ نصف ما له عليه وترك نصفا
   صحيح البخاريضع الشطر فقال كعب قد فعلت يا رسول الله فقال رسول الله قم فاقضه
   صحيح البخاريضع من دينك هذا قال لقد فعلت يا رسول الله
   صحيح البخاريضع من دينك هذا قال لقد فعلت يا رسول الله قال قم فاقضه
   صحيح البخاريضع الشطر من دينك قال كعب قد فعلت يا رسول الله قال رسول الله قم فاقضه
   صحيح مسلمضع الشطر من دينك قال كعب قد فعلت يا رسول الله قال رسول الله قم فاقضه
   سنن أبي داودقم فاقضه
   سنن النسائى الصغرىضع من دينك هذا قال قد فعلت قال قم فاقضه
   سنن النسائى الصغرىأخذ نصفا مما عليه وترك نصفا
   سنن ابن ماجهدع من دينك هذا فقال قد فعلت قال قم فاقضه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5410  
´حاکم اپنے گھر میں رہ کر بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔`
کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے اپنے قرض کا جو ان کے ذمہ تھا تقاضا کیا، ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی دیں، آپ اپنے گھر میں تھے، چنانچہ آپ ان کی طرف نکلے، پھر اپنے کمرے کا پردہ اٹھایا اور پکارا: کعب! وہ بولے: حاضر ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اتنا قرض معاف کر دو اور آپ نے آدھے اشارہ کیا۔ کہا: میں نے معاف کیا، پھر آپ نے (ابن ابی حدرد [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5410]
اردو حاشہ:
(1) کسی ضروت کی بنا پر حاکم یا قاضی وغیرہ اپنے گھر میں یا کمرۂ عدالت سے باہر کوئی فیصلہ کرے تو یہ جائز ہے۔ بشرطیکہ اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے کوئی مشکل یا تکلیف وغیرہ نہ ہو۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر بوقت ضرورت کبھی مسجد میں آواز اونچی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، البتہ اس کو معمول بنانا اور خواہ مخواہ اپنی آواز مسجد میں بلند اور اونچی کرنا درست نہیں۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایسا اشارہ جس سے مفہوم سمجھ میں آجائے وہ بمنزلہ کلام کے ہوتا ہے کیونکہ اس اشارے کی دلالت کلام پر ہوتی ہے۔ بنا بریں گونگے کی گواہی، اس کی قسم، اس کی خرید و فروخت اور دیگر معاملات درست قرار پائیں گے۔
(4) یہ حدیث اس مسئلے کی بھی وضاحت کرتی ہے ہے کہ اگر صاحب حق سے سفارش کرکے اس کے حق میں سے سارا یا کچھ معاف کرا لیا جائے تو ایسا کرنا شرعاً درست ہے، نیز صاحب حق یا کسی دوسرے شخص کو اگر جائز سفارش کی جائے، تو سے سفارش قبول کر لینی چاہیے۔
(5) مسجد میں ادائیگی قرض کا مطالبہ اور تقاضا کرنا درست ہے، نیز قرض کے علاوہ اپنےدیگر حقوق کا مطالبہ بھی مسجد میں کیا جاسکتا ہے۔
(6) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کی بنا پر کھڑکیوں اور دروازوں پرپردے لٹکانا شرعاً جائز اور درست ہے۔
   حوالہ: سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5410   
------------------
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2429  
´قرض کی وجہ سے قید کرنے اور قرض دار کو پکڑے رہنے کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں اونچی ہو گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو آپ گھر سے نکل کر ان کے پاس آئے، اور کعب رضی اللہ عنہ کو آواز دی، تو وہ بولے: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے قرض میں سے اتنا چھوڑ دو، اور اپنے ہاتھ سے آدھے کا اشارہ کیا، تو وہ بولے: میں نے چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اٹھو، جاؤ ان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2429]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قرض خواہ مقروض سےقرض کی واپسی کا تقاضا کرسکتا ہے۔

(2)
دوآدمیوں میں کسی بات پرجھگڑا ہو جائے تو صلح کرا دیں چاہیے خاص طورپروہ شخص جس کوجھگڑنے والوں پر کسی قسم کی فضیلت حاصل ہو اوراس کی بات مانی جاتی ہو تو اس کےلیے ضروری ہے کہ جھگڑا ختم کرائے۔

(3)
صلح کے لیے صاحب حق اپنا کچھ حق چھوڑ دے تو بہت ثواب کی بات ہے۔
   حوالہ: سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2429   
------------------
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3595  
´صلح کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابن ابی حدرد سے اپنے اس قرض کا جو ان کے ذمہ تھا مسجد کے اندر تقاضا کیا تو ان دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا آپ اپنے گھر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کی طرف نکلے یہاں تک کہ اپنے کمرے کا پردہ اٹھا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پکارا اور کہا: اے کعب! تو انہوں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! پھر آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا قرضہ معاف کر دو، کعب نے کہا: میں نے معاف کر دیا اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3595]
فوائد ومسائل:
فائدہ: قاضی اور حاکم کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ عوام کے تنازعات میں ان کی صلح کرا دے۔
اور مالی حقوق میں صاحب حق خوشی سے اگر اپنا حق چھوڑدے تو جائز ہے، صلح میں جبر نہیں ہے۔
 
   حوالہ: سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3595   
------------------