الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
5. باب وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ
5. باب: سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3033
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَأَخْبَرَنَا، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمْلَى عَلَيْهِ، " لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ: فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمْلِيهَا عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي فَثَقُلَتْ حَتَّى هَمَّتْ تَرُضُّ فَخِذِي ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ رِوَايَةُ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ مِنَ التَّابِعِين، رَوَاهُ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، وَمَرْوَانُ لم يسمع من النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مِنَ التَّابِعِين.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھا تو میں بھی آگے بڑھ کر ان کے پہلو میں جا بیٹھا انہوں نے ہمیں بتایا کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں املا کرایا «‏‏‏‏(لا يستوي القاعدون من المؤمنين» «والمجاهدون في سبيل الله» گھروں میں بیٹھ رہنے والے مسلمان، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے اسی دوران ابن ام مکتوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ پہنچے اور آپ اس آیت کا ہمیں املا کرا رہے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی، اگر میں جہاد کی طاقت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا، وہ نابینا شخص تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت «غير أولي الضرر» نازل فرمائی اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت آپ کی ران (قریب بیٹھے ہونے کی وجہ سے) میری ران پر تھی، وہ (نزول وحی کے دباؤ سے) بوجھل ہو گئی، لگتا تھا کہ میری ران پس جائے گی۔ پھر (جب نزول وحی کی کیفیت ختم ہو گئی) تو آپ کی پریشانی دور ہو گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح کئی راویوں نے زہری سے اور زہری نے سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت کی ہے،
۳- معمر نے زہری سے یہ حدیث قبیصہ بن ذویب کے واسطہ سے، قبیصہ نے زید بن ثابت سے روایت کی ہے، اور اس حدیث میں ایک روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کی ایک تابعی سے ہے، روایت کیا ہے سہل بن سعد انصاری (صحابی) نے مروان بن حکم (تابعی) سے۔ اور مروان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے، وہ تابعی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3033]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 31 (2832)، وتفسیر النساء 19 (4592) (تحفة الأشراف: 3739) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاريأملى عليه لا يستوي القاعدون من المؤمنين
   جامع الترمذيأملى عليه لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله لو أستطيع الجهاد لجاهدت وكان رجلا أعمى فأنزل الله على رسوله وفخذه على فخذي فثقلت حتى همت ترض فخذي ثم سري عنه فأنزل الله عليه غير أولي الضرر
   سنن أبي داوداكتب فكتبت في كتف لا يستوي القاعدون من المؤمنين
   سنن النسائى الصغرىلا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله قال فجاءه ابن أم مكتوم وهو يملها علي لو أستطيع الجهاد لجاهدت وكان رجلا أعمى فأنزل الله على رسوله وفخذه على فخذي حتى همت ترض فخذي ثم سري عنه فأنزل الله غير أولي الضرر
   سنن النسائى الصغرىلا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله فجاء ابن أم مكتوم وهو يملها علي لو أستطيع الجهاد لجاهدت فأنزل الله وفخذه على فخذي فثقلت علي حتى ظننت أن سترض فخذي ثم سري عنه غير أولي الضرر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2507  
´عذر کی بنا پر جہاد میں نہ جانے کی اجازت کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (یعنی وحی اترنے لگی) (اسی دوران) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑ گئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: لکھو، میں نے شانہ (کی ایک ہڈی) پر «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2507]
فوائد ومسائل:

مریض، نابینا، اپاہج، یا دیگر شرعی عذر کی بنا ء پر اگر کوئی جہاد سے پیچھے رہ جائے۔
تو مباح ہے، لیکن جب نفیر عام کا حکم ہو تو بلا عذر پیچھے رہنا کسی طرح روا نہیں۔


نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر انتہائی بوجھ پڑتا تھا۔
حتیٰ کے سخت سردی میں بھی آپﷺ کو پسینہ آجاتا تھا۔
اور اگر آپ اونٹنی پر ہوتے تو وہ بھی ٹک کرکھڑی ہوجاتی تھی۔
اور چل نہ سکتی تھی۔


قرآن مجید جس قدر اترتا تھا نبی کریم ﷺ اس کی کتابت کروا دیا کرتے تھے۔
البتہ ابتداء میں احادیث کے لکھنے کی عام اجازت نہ تھی۔
سوائے چند ایک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے زیادہ وثائق جو آپ نے بالخصوص لکھوائے۔

   حوالہ: سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2507   
------------------