الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
19. باب رَبْطِ الأَسِيرِ وَحَبْسِهِ وَجَوَازِ الْمَنِّ عَلَيْهِ:
19. باب: قیدی کو باندھنا اور بند کرنا اور اس کو مفت چھوڑ دینا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 4589
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ، يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، فَقَالَ: عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ، فَقَالَ: مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، قَالَ: مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ، فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ كُلِّهَا إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ كُلِّهِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ كُلِّهَا إِلَيَّ، وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَى؟، فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ "، فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، قَالَ لَهُ قَائِلٌ: أَصَبَوْتَ؟، فَقَالَ: لَا، وَلَكِنِّي أَسْلَمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
لیث نے ہمیں سعید بن ابی سعید سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی جانب گھڑ سواروں کا ایک دستہ بھیجا تو وہ بنوحنفیہ کے ایک آدمی کو پکڑ لائے، جسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا، وہ اہل یمامہ کا سردار تھا، انہوں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکل کر اس کے پاس آئے اور پوچھا: "ثمامہ! تمہارے پاس کیا (خبر) ہے؟" اس نے جواب دیا: اے محمد! میرے پاس اچھی بات ہے، اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے۔ اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجئے، آپ جو چاہتے ہیں، آپ کو دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا حتی کہ جب اگلے سے بعد کا دن (آئندہ پرسوں) ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "ثمامہ! تمہارے پاس (کہنے کو) کیا ہے؟" اس نے جواب دیا: (وہی) جو میں نے آپ سے کہا تھا، اگر احسان کریں گے تو ایک شکر کرنے والے پر احسان کریں گے اور اگر قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجئے، آپ جو چاہتے ہیں آپ کو وہی دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اسی حال میں) چھوڑ دیا حتی کہ جب اگلا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "ثمامہ! تمہارے پاس کیا ہے؟" اس نے جواب دیا: میرے پاس وہی ہے جو میں نے آپ سے کہا تھا: اگر احسان کریں گے تو ایک احسان شناس پر احسان کریں گے اور اگر قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون ضائع نہیں جاتا، اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجیے، آپ جو چاہتے ہیں وہی آپ کو دیا جائے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ثمامہ کو آزاد کر دو۔" وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے ایک باغ کی طرف گیا، غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہوا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے محمد! اللہ کی قسم! روئے زمین پر آپ کے چہرے سے بڑھ کر کوئی چہرہ نہیں تھا جس سے مجھے بغض ہو اور اب آپ کے چہرے سے بڑھ کر کوئی چہرہ نہیں جو مجھے زیادہ محبوب ہو۔ اللہ کی قسم! آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی دین مجھے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا، اب آپ کا دین سب سے بڑھ کر محبوب دین ہو گیا ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے آپ کے شہر سے بڑھ کر کوئی شہر برا نہیں لگتا تھا، اب مجھے آپ کے شہر سے بڑھ کو کوئی اور شہر محبوب نہیں۔ آپ کے گھڑسواروں نے مجھے (اس وقت) پکڑا تھا جب میں عمرہ کرنا چاہتا تھا۔ اب آپ کیا (صحیح) سمجھتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (ایمان کی قبولیت کی) خوشخبری دی اور حکم دیا کہ عمرہ ادا کرے۔ جب وہ مکہ آئے تو کسی کہنے والے نے ان سے کہا: کیا بے دین ہو گئے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا: نہیں، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام میں داخل ہو گیا ہوں، اور اللہ کی قسم! یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت دے دیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑ سوار دستہ نجد کی طرف بھیجا تو وہ دستہ بنو حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی آدمی کو پکڑ لایا جو اہل یمامہ کا سردار تھا تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: تیرا کیا خیال ہے، اے ثمامہ! تو اس نے کہا، اے محمد! میرا خیال اچھا ہے، (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے ساتھ برا سلوک نہیں کرتے)۔ اگر آپ قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے، اور اگر آپ احسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہے لے لیجئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ کر چلے گئے حتی کہ اگلے دن کے بعد آئے اور پوچھا، تیرا کیا تصور ہے؟ اے ثمامہ۔ اس نے کہا، جو میں آپ کو کہہ چکا ہوں، اگر آپ احسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان فرمائیں گے اور اگر آپ قتل کریں گے تو ایک صاحب خون کو قتل کریں گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں مانگ لیں، آپ کو دے دیا جائے گا تو آپ اسے چھوڑ کر چلے گئے حتی کہ اگلا دن آ گیا تو آپ نے پوچھا، تیرا کیا گمان ہے؟ اے ثمامہ۔ تو اس نے کہا، میں نے اپنا نظریہ آپ کو بتا دیا ہے، اگر آپ احسان کریں گے تو ایک شکر گزار انسان پر احسان ہو گا اور اگر آپ قتل کریں گے تو آپ ایک خون کے مالک کو قتل کریں گے۔ اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو مانگئے، جو آپ چاہیں، مل جائے گا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ثمامہ کو آزاد کر دو۔ تو وہ مسجد کے قریبی نخلستان میں چلا گیا اور غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہو کر کہنے لگا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بےشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندہ اور رسول ہیں، اے محمد! اللہ کی قسم! روئے زمین پر کوئی چہرہ (شخص) مجھے آپ کے چہرہ (شخصیت) سے زیادہ مبغوض نہ تھا اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تمام چہروں سے مجھے زیادہ محبوب ہے، اللہ کی قسم! کوئی دین، مجھے آپ کے دین سے زیادہ ناپسندیدہ نہ تھا اور اب آپ کا دین، تمام دینوں سے مجھے زیادہ پسند ہے، اللہ کی قسم! کوئی شہر میرے نزدیک آپ کے شہر سے زیادہ قابل نفرت نہ تھا اور اب آپ کا علاقہ (شہر) مجھے تمام شہروں سے زیادہ پسند ہے اور آپ کے سواروں نے مجھے اس وقت پکڑا جبکہ میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا تو آپ کا کیا خیال ہے؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (قبولیت کی) بشارت سنائی اور اسے عمرہ کرنے کا حکم دیا، جب وہ مکہ آیا تو کسی نے اس سے پوچھا، کیا بے دین ہو گئے ہو؟ اس نے کہا، نہیں، لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام میں داخل ہو گیا ہوں اور نہیں، اللہ کی قسم! تمہارے پاس ثمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1764
   صحيح البخاريربطوه بسارية من سواري المسجد
   صحيح البخاريما عندك يا ثمامة فقال عندي خير يا محمد إن تقتلني تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل منه ما شئت فترك حتى كان الغد ثم قال له ما عندك يا ثمامة قال ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر فتركه حتى كان بعد الغد فقال ما عندك يا ثمامة ف
   صحيح البخاريبعث رسول الله خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله قال ما عندك يا ثمامة قال عندي يا محمد خير فذكر الحديث قال أطلقوا ثمامة
   صحيح البخاريبعث النبي خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال فربطوه بسارية من سواري المسجد
   صحيح مسلمماذا عندك يا ثمامة فقال عندي يا محمد خير إن تقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت فتركه رسول الله حتى كان بعد الغد فقال ما عندك يا ثمامة قال ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا
   سنن النسائى الصغرىبعث رسول الله خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة فربط بسارية من سواري المسجد
   بلوغ المراموامره النبي صلى الله عليه وآله وسلم ان يغتسل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 99  
´اسلام لانے کے بعد غسل کرنا`
«. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه- فى قصة ثمامة بن اثال عندما اسلم- وامره النبى صلى الله عليه وآله وسلم ان يغتسل . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ کے متعلق مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غسل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/باب الغسل وحكم الجنب: 99]

فوائد و مسائل:
➊ کافر جب اسلام کے لیے آمادہ ہو تو پہلے اسے غسل کرنا چاہیے۔
➋ یہ غسل واجب ہے یا مسنون و مستحب، اس میں بھی علماء کے مابین اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک واجب ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اسے مستحب سمجھتے ہیں۔

راوئ حدیث: سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ دونوں لفظوں کے پہلے حرف پر ضمہ ہے اور دوسرا حرف تخفیف کے ساتھ ہے۔ یمامہ کے قبیلے بنو حنیفہ کے فرد تھے اور سرداری کے منصب پر فائز تھے۔ عمرہ ادا کرنے نکلے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہ سواروں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ وہ انہیں مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائے اور انہیں مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان انہیں آزاد کر دیا۔ اس کے بعد یہ مسلمان ہو گئے اور اسلام کا بہت عمدہ ثبوت دیا۔ جن دنوں لوگ مرتد ہو رہے تھے یہ بڑی مضبوطی اور ثابت قدمی سے اسلام پر ڈٹے رہے۔ جب ان کی قوم کے لوگ مسلیمہ کذاب کے فتنے کا شکار ہو گئے تو یہ ان کے خلاف بڑے حوصلے اور عزم و ہمت سے ثابت قدم رہے۔
   حوالہ: بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 99   
------------------
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 713  
´قیدی کو مسجد کے کھمبے سے باندھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو قبیلہ نجد کی جانب بھیجا، تو وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی ایک شخص کو (گرفتار کر کے) لائے، جو اہل یمامہ کا سردار تھا، اسے مسجد کے کھمبے سے باندھ دیا گیا، یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 713]
713 ۔ اردو حاشیہ:
➊ آپ کے دور میں کوئی جیل تو تھی نہیں اور اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ کبھی کبھار کوئی قیدی آتا تھا، اس لیے انہیں مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔ اس میں ایک اور مقصد بھی تھا کہ وہ مسلمانوں کو عبادت کرتے، چلتے پھرتے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے دیکھ کر متاثر ہوں اور مسلمان ہو جائیں اور ایسے ہی ہوا۔ وہ مسجد، وہاں اعمال صالحہ کی برکت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے۔
➋ قصۂ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی یہ روایت تو مختصر ہے لیکن صحیحین میں اس واقعے کی تفصیلی روایت موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4372، و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 1764]

   حوالہ: سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 713   
------------------
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4589  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ماذاعندك؟ياثمامه:
اے ثمامہ،
تیرے خیال میں ہم تیرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔
(2)
إِنْ تقتُل،
تَقتُل ذَا دم:
اگر قتل کرو گے تو ایک قدروقیمت اور صاحب حیثیت کا خون بہاؤ گے،
جس کے خون کا بدلہ لیا جائے اور اس کا خون،
اس کے دشمن کے لیے تشفی بخش ہے یا وہ اپنے فعل و حرکت کی بنا پر قتل کا مستحق ہے،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر کے کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوں گے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
قیدی کو مسجد میں باندھنا اور قید کرنا جائز ہے اور ضرورت یا کسی مقصد کے تحت کسی کافر کو مسجد میں لایا جا سکتا ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کافر کو تین دن تک مسجد میں باندھے رکھا تاکہ وہ مسلمانوں کی سیرت و کردار اور ان کے پیغام سے آگاہ ہو اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام لانے کے لیے غسل کی ضرورت ہو،
امام مالک،
امام احمد کے نزدیک،
یہ فرض ہے احناف کے نزدیک مستحب ہے اور شوافع کے نزدیک اگر کافر جنبی ہوا ہو تو واجب ہے،
وگرنہ لازم نہیں ہے،
مستحب ہے۔
   حوالہ: تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4589   
------------------