لفظ وضاحت

حَمَلَ
بوجھ اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا استعمال عام ہے، اور مادی و معنوی دونوں کے لیے مستعمل ہے۔

متعلقہ اردو لفظ اور اس کے عربی مترادف

اٹھانا ، بوجھ اٹھانا
”اٹھانا ، بوجھ اٹھانا“ کے لیے ”حَمَلَ“ ، ”نَاء“ ”(نوء)“ ، ”وَزَرَ“ ، ”اَثَارَ“ ”(ثور)“ ، ”اَقَلَ“ ، ”بَعَثَ“ ، ”اَنْشَرَ“ ، ”اَنْشَزَ“ ، ”اِلْتَقَطَ“ اور ”لَقَحَ“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
روٹ:ح م ل
حَمَلَ
بوجھ اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا استعمال عام ہے، اور مادی و معنوی دونوں کے لیے مستعمل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ
”جب مرد عورت کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل ہو جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے ۔“
[7-الأعراف:189]

روٹ:ن و أ
نَاء
(ینوء )کے معنی سخت محنت کرنا اور مشقت سے بوجھ اٹھانا۔ زیادہ بوجھ ہونے کی وجہ سے مشکل سے اٹھانا یا اٹھا سکنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ
”اور ہم نے اس ( قارون ) کو اتنے خزانے دیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں۔“
[28-القصص:76]

روٹ:و ز ر
وَزَرَ
جب کوئی شخص اپنا کپڑا پھیلا کر اس میں اپنا بوجھ رکھ کر اٹھاتا اور چل دیتا ہے تو یہی وَزَرَ کا صحیح مفہوم ہے ۔ اسی لیے ذنب یعنی گناہ کو وِزْر کہتے ہیں یعنی وہ شخص اپنے کیے ہوئے گناہ کا بوجھ اٹھا لیتا ۔ گو یا وَزَرَ کا استعمال عموما گناہوں کے بارگراں اٹھانے کے لیے آتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ
”اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ اپنی نشستوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ دیکھو جو بوجھ یہ اٹھائیں گے کیسا برا ہے۔“
[6-الأنعام:31]

روٹ:ث و ر
اَثَارَ
(ثور ) ثار کے معنی کسی چیز کے اوپر اٹھنا میں ملا اور اَثَارَ کا لفظ اوپر اٹھانے کے لیے آتا ہے ، اگر یہ لفظ زمین سے متعلق ہو تو اس کے معنی ہیں جو تنا ہوتا ہے کہ اس سے زمین کو اوپر اٹھاتے ہیں ۔ اور بالعموم اس لفظ کا استعمال ہواؤں اور دریاؤں کوار پر اٹھانے کے لیے ہوتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا
”خدا ہی تو ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں ، پھر خدا اس کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا اور تہ بتہ کر دیتا ہے ۔“
[30-الروم:48]

روٹ:ق ل ل
اَقَلَ
قَلَّ بنیادی طور پر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) کم ہونا (2) بلند ہونا اور اَقَلَّ بمعنی کسی چیز کو اٹھانا اور بلند کرنا۔ اور اقل اثار سے زیادہ ابلغ ہے ۔ یعنی ہواؤں کا بارش سے لدے ہوے بوجھل بادلوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اٹھائے لیے پھرنا۔ چنانچہ درج ذیل آیت بھی اس بات کی وضاحت کر رہی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَيِّتٍ
”اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت یعنی مینہ سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ بھاری بھاری بادلوں کو اٹھاتی ہے تو ہم اس کو ایک مری ہوئی بستی کی طرت ہانک دیتے ہیں۔“
[7-الأعراف:57]

روٹ:ب ع ث
بَعَثَ
بنیادی طور پراس میں دومعنی پائے جاتے ہیں (1) ابھارنا ۔ اٹھانا (2) تنہا روانہ کرنا۔ کبھی تو بیک وقت یہ لفظ ان دونوں معنوں میں کبھی الگ الگ کسی ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے ، کہا جاتا ہے بَعَثْتُ الْبَعِیْر جس کے معنی ہیں اونٹ کو اٹھانا اور آزاد کردینا۔اس وقت زیر بحث اس کے پہلے معنی ہیں مگر اس لفظ کا استعمال مُردوں سے متعلق ہو تو بھی اس میں دونوں معنی پائے جاتے ہیں یعنی مردوں کو زندہ کر کے اٹھانا اور میدان محشر کی طرف چلانا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ
”اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیںاور یہ کہ خدا سب لوگوں کو جو قبروں میں میں جلا اٹھائیگا۔“
[22-الحج:7]

روٹ:ن ش ر
اَنْشَرَ
نَشَرَ کے بنیادی معنی پھیلانا ہیں اور اس کی ضد طوی یعنی لپیٹنا ہے ۔ نَشَرْتُ الْكِتَاب یعنی میں نے کتاب کو کھولا ، یا پھیلایا اور طَوَبْتُهٗ کے معنی کتاب کو لپیٹ دیا یا بند کر دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ
”اور جب عملوں کے دفتر کھولے جائیں گے ۔“
[81-التكوير:10]

روٹ:ن ش ز
اَنْشَزَ
نشز کے بنیادی معنی ارتفاع ، اٹھان ، ابھار کے ہیں۔ خصوصا جب کسی چیز میں یہ اٹھان تحرک اور ہیجان کا نتیجہ ہو۔ نَشَزَ الرجل کا معنی بیٹھے ہوئے آدمی کا اٹھ کھڑا ہونا ہے ( مجد ) اسی سے اَنْشَزَ فعل متعدی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا
”اور اپنے ہمراہ گدھے کو دیکھو اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ بنانا چاہا اور ہڈیوں کی طرف بھی دیکھو ہم انھیں کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہی پران پرگوشت پوست چڑھاتے ہیں ۔“
[2-البقرة:259]

روٹ:ل ق ط
اِلْتَقَطَ
لَقَطَ کے معنی زمین سے کسی چیز کا اٹھانا اور لقطۃ اس چیز کو کہتے ہیں جو زمین پرگری پڑی دستیاب ہو اور اس کا مالک معلوم نہ ہو۔ اس سے اِلْتَقَطَ مشتق ہے جس کے معنی ہیں ۔ زمین سے کسی ایسی گری پڑی چیز کا اٹھانا جس کے مالک کا علم نہ ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ
”(یوسف علیہ السلام کے بھائیوں میں سے) ایک کہنے والے نے کہا کہ پوسف کو جان سے نہ مارو۔ کسی گہرے کنویں میں ڈال دو۔ کوئی راہگیر اسے اٹھائے جائیں ۔“
[12-يوسف:10]

روٹ:ل ق ح
لَقَحَ
یہ لفظ باطنی قسم کے بوجھ اٹھانے سے مخصوص ہے لقحة الناقة بمعنی اونٹنی حاملہ ہو گئی۔ پھر یہ لفظ ہواؤں سے بھی متعلق ہے جو نردرخت سے تخم لے جاکر مادہ درخت میں تخم ریزی کرتی ہیں یا وہ ہوائیں جو بارش کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً
”اور ہم بادلوں کے پانی کا بوجھ اٹھانے والی ہوائیں بھیجتے ہیں ۔ پھر ہم ہی آسمان سے مینہ برساتے ہیں۔“
[15-الحجر:22]



ماحصل

نمبر لفظ مختصر وضاحت
1
حَمَلَ
حمل ، بوجھ اٹھانے کے لیے خواہ مادی ہو یا معنوی عام ہے ۔
2
نَاء
زیادہ بوجھ جو بہ مشقت اٹھایا جا سکے۔ بوجھ کو بہ مشقت اٹھانا۔
3
وَزَرَ
ہواؤں کا بادلوں کو اٹھانے کے لیے۔
4
اَثَارَ
عموما گناہ کا بوجھ اٹھانے کے لیے آتا ہے۔
5
اَقَلَ
بادلوں کا بوجھ معمولی سمجھ کر اٹھانے کے لیے۔
6
بَعَثَ
مردوں کو اٹھانے کے لیے
7
اَنْشَرَ
مردوں کو اٹھا کر پھیلانے کے لیے
8
اَنْشَزَ
کسی چیز میں تحرک پیدا کر کے اٹھانے کے لیے۔
9
اِلْتَقَطَ
کسی گری پڑی چیز کو اٹھانے کے لیے
10
لَقَحَ
باطنی قسم کا بوجھ اٹھانے کے لیے مخصوص ہے

نوٹ:
الفاظ کی یہ فہرست ہر ہفتہ آپڈیٹ ہوتی ہے ، نئے الفاظ شامل کیے جاتے ہیں لہذا دوبارہ وزٹ کیجئے ، اگر کوئی غلطی نظر آئے یا تجاویز دینا چاہیں تو اطلاع دیجیے۔

Abu Talha
Whatsapp: +92 0331-5902482

Email: islamicurdubooks@gmail.com