لَاجَرَمَ
اس لفظ کے معنی میں علماء میں اختلاف ہے اکثر مترجمین اس کا معنی بلاشبہ بیشک لکھتے ہیں صاحب منجد اس کا معنی خدا کی قسم لکھتے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ تین بار استعمال ہوا ہے اور تینوں بار ان سے پہلے آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تحقیق مزید کے لیے آتا ہے۔ تاہم اگر صاحب منجد کا معنی خدا کی قسم کر لیا جائے تو بھی درست ہے اور تاکید مزید ہی پیدا ہوتی ہے۔
”بےشک“ کے لیے ”اِنَّ“ ، ”اَنَّ“ ، ”لَاجَرَمَ“ اور ”قَدْ“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
اِنَّ ، اَنَّ
یہ سب تحقیق کے لیے آتے ہیں۔ اور بلاشبہ ، بےشک یقینا کا معنی دیتا ہے۔ یہ دونوں الفاظ اسم پر داخل ہوتے ہیں۔ اِنّ صدر کلام میں آتا ہے جیسے :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ
”بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے“
[2-البقرة:68]
لیکن اَنَّ درمیان میں آتا ہے جیسے :
لَاجَرَمَ
اس لفظ کے معنی میں علماء میں اختلاف ہے اکثر مترجمین اس کا معنی بلاشبہ بیشک لکھتے ہیں صاحب منجد اس کا معنی خدا کی قسم لکھتے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ تین بار استعمال ہوا ہے اور تینوں بار ان سے پہلے آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تحقیق مزید کے لیے آتا ہے۔ تاہم اگر صاحب منجد کا معنی خدا کی قسم کر لیا جائے تو بھی درست ہے اور تاکید مزید ہی پیدا ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ
”بلاشبہ یہ لوگ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان پانے والے ہیں۔“
[11-هود:22]
قَدْ
فعل ماضی پر داخل ہو کر تحقیق کے معنی بھی دیتا ہے اور زمانہ حال کے قریب بھی کر دیتا ہے۔ یعنی فعل ماضی کو ماضی قریب میں بدل دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي
”بلاشبہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے۔“
[58-المجادلة:1]