قرآن مجيد

سورة طه
إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى[15]
یقینا قیامت آنے والی ہے، میں قریب ہوں کہ اسے چھپا کر رکھوں، تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔[15]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 15، 16،

باب

قیامت یقیناً آنے والی ہے۔ ممکن ہے میں اس کے وقت کے صحیح علم کو ظاہر نہ کروں۔ ایک قرأت میں «أُخْفِيهَا» کے بعد «مِنْ نَّفْسِیْ» ‏‏‏‏کے لفظ بھی ہیں کیونکہ اللہ کی ذات سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ یعنی اس کا علم بجز اپنے کسی کو نہیں دوں گا۔ پس روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں ہوا جسے قیامت کے قائم ہونے کا مقررہ وقت معلوم ہو۔ یہ وہ چیز ہے کہ اگر ہو سکے تو خود میں اپنے سے بھی اسے چھپا دوں لیکن رب سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ ملائکہ سے پوشیدہ ہے انبیاء اس سے بےعلم ہیں۔

جیسے فرمان ہے «‏‏‏‏قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ» [27-النمل:65] ‏‏‏‏ ” زمین و آسمان والوں میں سے سوائے اللہ واحد کے کوئی اور غیب دان نہیں۔ “

اور آیت میں ہے «ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً» [7-الأعراف:187] ‏‏‏‏ قیامت زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے، وہ اچانک آ جائے گی یعنی اس کا علم کسی کو نہیں۔

ایک قرأت میں «أُخْفِيهَا» ہے۔ ورقہ فرماتے ہیں مجھے سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے اسی طرح پڑھایا ہے، اس کے معنی ہیں «اَظْھَرَھَا»، اس دن ہر عامل کو اپنے عمل کا بدلہ دیا جائے گا خواہ ذرہ برابر نیکی ہو، خواہ بدی ہو، اپنے کرتوت کا بدلہ اس دن ضرور ملنا ہے۔

پس کسی کو بھی بے ایمان لوگ بہکا نہ دیں۔ قیامت کے منکر، دنیا کے مفتوں، مولا کے نافرمان، خواہش کے غلام، کسی اللہ کے بندے کے اس پاک عقیدے میں اسے تزلزل پیدا نہ کرنے پائیں۔ اگر وہ اپنی چاہت میں کامیاب ہو گئے تو یہ غارت ہوا اور نقصان میں پڑا۔