قرآن مجيد

سورة الأنبياء
بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ[40]
بلکہ وہ ان پر اچانک آئے گی تو انھیں مبہوت کر دے گی، پھر وہ نہ اسے ہٹا سکیں گے اور نہ انھیں مہلت دی جائے گی۔[40]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 38، 39، 40،

خود عذاب کے طالب لوگ ٭٭

عذاب الٰہی کو، قیامت کے آنے کو یہ لوگ چونکہ محال جانتے تھے، اس لیے جرأت سے کہتے تھے کہ بتاؤ تو سہی تمہارے یہ ڈراوے کب پورے ہوں گے؟ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ” تم اگر سمجھ دار ہوتے اور اس دن کی ہولناکیوں سے آگاہ ہوتے تو جلدی نہ مچاتے “۔

«لَهُم مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ» [39-الزمر:16] ‏‏‏‏ ” اس وقت عذاب الٰہی اوپر تلے سے اوڑھنا بچھونا بنے ہوئے ہونگے “، «لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ» [7-الأعراف:41] ‏‏‏‏ ” طاقت نہ ہوگی کہ آگے پیچھے سے اللہ کا عذاب ہٹا سکو “۔

«سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ» [14-ابراھیم:50] ‏‏‏‏ ” گندھک کا لباس ہوگا جس میں آگ لگی ہوئی ہوگی اور کھڑے جل رہے ہوں گے، ہرطرف سے جہنم گھیرے ہوئے ہوگی “۔ «وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن وَاقٍ» [13-الرعد:34] ‏‏‏‏ ” کوئی نہ ہوگا جو مدد کو اٹھے۔ جہنم اچانک دبوچ لے گی۔ اس وقت ہکے بکے رہ جاؤ گے، مبہوت اور بے ہوش ہو جاؤ گے، حیران و پریشان ہو جاؤ گے، کوئی حیلہ نہ ملے گا کہ اسے دفع کرو، اس سے بچ جاؤ اور نہ ایک ساعت کی ڈھیل اور مہلت ملے گی “۔