قرآن مجيد

سورة العنكبوت
إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلَى أَهْلِ هَذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ[34]
بے شک ہم اس بستی والوں پر آسمان سے ایک عذاب اتارنے والے ہیں، اس وجہ سے جو وہ نافرمانی کیا کرتے تھے۔[34]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 31، 32، 33، 34، 35،

فرشتوں کی آمد ٭٭



لوط علیہ السلام کی جب نہ مانی گئی بلکہ سنی بھی نہ گئی تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی جس پر فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے بشکل انسان پہلے بطور مہمان ابراہیم علیہ السلام کے گھر آئے۔ آپ نے ضیافت کا سامان تیار کیا اور سامنے لارکھا۔ جب دیکھا کہ انہیں اس کی رغبت نہ کی تو دل ہی دل میں خوفزدہ ہو گئے تو فرشتوں نے ان کی دلجوئی شروع کی اور خبر دی کہ ایک نیک بچہ ان کے ہاں پیدا ہو گا۔ سارہ جو وہاں موجود تھیں یہ سن کر تعجب کرنے لگیں جیسے سورۃ ہود اور سورۃ الحجر میں مفصل تفسیر گزر چکی ہے۔ اب فرشتوں نے اپنا اصلی ارادہ ظاہر کیا۔ جسے سن کر ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا کہ اگر وہ لوگ کچھ اور ڈھیل دے دئیے جائیں تو کیا عجب کہ راہ راست پر آ جائیں۔

اس لیے فرمانے لگے کہ وہاں تو لوط نبی علیہ السلام بھی ہیں۔ فرشتوں نے جواب دیا ہم ان سے غافل نہیں۔ ہمیں حکم ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو بچالیں۔ ہاں ان کی بیوی تو بیشک ہلاک ہو گی۔ کیونکہ وہ اپنی قوم کے کفر میں ان کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ یہاں سے رخصت ہو کر خوبصورت قریب البلوغ بچوں کی صورت میں یہ لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے۔ انہیں دیکھتے ہی لوط نبی علیہ السلام شش وپنج میں پڑ گئے کہ اگر انہیں ٹھہراتے ہیں تو ان کی خبر پاتے ہی کفار بھڑ بھڑا کر آ جائیں گے اور مجھے تنگ کریں گے اور انہیں بھی پریشان کریں گے۔ اگر نہیں ٹھہراتا تو یہ انہی کے ہاتھ پڑجائیں گے قوم کی خصلت سے واقف تھے اس لیے ناخوش اور سنجیدہ ہو گئے۔ لیکن فرشتوں نے ان کی یہ گھبراہٹ دور کر دی کہ آپ گھبرائیے نہیں رنجیدہ نہ ہوں ہم تو اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں انہیں تباہ و برباد کرنے کے لیے آئیں ہیں۔ آپ اور آپ کا خاندان سوائے آپ کی اہلیہ کے بچ جائے گا۔ باقی ان سب پر آسمانی عذاب آئے گا اور انہیں ان کی بدکاری کا نتیجہ دکھایا دیا جائے گا۔



پھر جبرائیل علیہ السلام نے ان بستیوں کو زمین سے اٹھایا اور آسمان تک لے گئے اور وہاں سے الٹ دیں پھر ان پر ان کے نام کے نشاندار پتھر برسائے گئے اور جس عذاب الٰہی کو وہ دورسجمھ رہے تھے وہ قریب ہی نکل آیا۔ ان کی بستیوں کی جگہ ایک کڑوے گندے اور بدبودار پانی کی جھیل رہ گئی۔ جو لوگوں کے لیے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنے۔ اور عقلمند لوگ اس ظاہری نشان کو دیکھ کر ان کی بری طرح ہلاکت کو یاد کر کے اللہ کی نافرمانیوں پر دلیری نہ کریں۔ عرب کے سفر میں رات دن یہ منظر ان کے پیش نظر تھا۔