قرآن مجيد

سورة الدخان

تفسیر سورۃ الدخان:

ترمذی شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص رات کو سورۃ «حم دخان» پڑھے اس کے لئے صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ (سنن ترمذي:2888،قال الشيخ الألباني:باطل و موضوع) یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی عمرو بن ابی خثعم ضعیف ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں۔

ترمذی کی اور حدیث میں ہے کہ جس نے اس سورۃ کو جمعہ کی رات پڑھا اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (سنن ترمذي:2891،قال الشيخ الألباني:ضعیف) یہ حدیث بھی غریب ہے۔ اور اس کے ایک راوی ابوالمقدام ہشام ضعیف ہیں اور دوسرے راوی حسن کا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت نہیں۔

مسند بزار میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے سامنے اپنے دل میں سورۃ دخان کو پوشیدہ کر کے اس سے پوچھا کہ بتا میرے دل میں کیا ہے؟ اس نے کہا «دخ» آپ نے فرمایا بس پرے ہٹ جا نامراد رہ گیا جو اللہ چاہتا ہے ہوتا ہے، پھر آپ لوٹ گئے۔ (طبرانی کبیر:4666:ضعیف)
حم[1]
حم۔[1]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8،

عظیم الشان قرآن کریم کا نزول اور ماہ شعبان ٭٭

اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس عظیم الشان قرآن کریم کو بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ جیسے ارشاد ہے «اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ» ‏‏‏‏ [ 97- القدر: 1 ] ‏‏‏‏ ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ اور یہ رات رمضان المبارک میں ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے «شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ» ‏‏‏‏ [ 2- البقرة: 185 ] ‏‏‏‏ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ سورۃ البقرہ میں اس کی پوری تفسیر گذر چکی ہے اس لیے یہاں دوبارہ نہیں لکھتے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لیلة المبارکہ جس میں قرآن شریف نازل ہوا وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے یہ قول سراسر بے دلیل ہے۔ اس لیے کہ نص قرآن سے قرآن کا رمضان میں نازل ہونا ثابت ہے۔ اور جس حدیث میں مروی ہے کہ شعبان میں اگلے شعبان تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ نکاح کا اور اولاد کا اور میت کا ہونا بھی وہ حدیث مرسل ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:222/11:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏

اور ایسی احادیث سے نص قرآنی کا معارضہ نہیں کیا جا سکتا ہم لوگوں کو آگاہ کر دینے والے ہیں یعنی انہیں خیر و شر نیکی بدی معلوم کرا دینے والے ہیں تاکہ مخلوق پر حجت ثابت ہو جائے اور لوگ علم شرعی حاصل کر لیں اسی شب ہر محکم کام طے کیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے کاتب فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے تمام سال کے کل اہم کام عمر روزی وغیرہ سب طے کر لی جاتی ہے۔ حکیم کے معنی محکم اور مضبوط کے ہیں جو بدلے نہیں وہ سب ہمارے حکم سے ہوتا ہے ہم رسل کے ارسال کرنے والے ہیں تاکہ وہ اللہ کی آیتیں اللہ کے بندوں کو پڑھ سنائیں جس کی انہیں سخت ضرورت اور پوری حاجت ہے یہ تیرے رب کی رحمت ہے اس رحمت کا کرنے والا قرآن کو اتارنے والا اور رسولوں کو بھیجنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان زمین اور کل چیز کا مالک ہے اور سب کا خالق ہے۔ تم اگر یقین کرنے والے ہو تو اس کے باور کرنے کے کافی وجوہ موجود ہیں پھر ارشاد ہوا کہ معبود برحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر ایک کی موت زیست اسی کے ہاتھ ہے تمہارا اور تم سے اگلوں کا سب کا پالنے پوسنے والا وہی ہے اس آیت کا مضمون اس آیت جیسا ہے «قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا» ‏‏‏‏ [ 7- الاعراف: 158 ] ‏‏‏‏ الخ، یعنی تو اعلان کر دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کی بادشاہت ہے آسمان و زمین کی۔ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو جلاتا اور مارتا ہے۔