قرآن مجيد

سورة الدخان
أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ أَهْلَكْنَاهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ[37]
کیا یہ لوگ بہتر ہیں، یا تبع کی قوم اور وہ لوگ جوان سے پہلے تھے؟ ہم نے انھیں ہلاک کردیا، بے شک وہ مجرم تھے۔[37]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 34، 35، 36، 37،

شہنشاہ تبع کی کہانی ٭٭

یہاں مشرکین کا انکار قیامت اور اس کی دلیل بیان فرما کر اللہ تعالیٰ اس کی تردید کرتا ہے ان کا خیال تھا کہ قیامت آنی نہیں مرنے کے بعد جینا نہیں۔ حشر اور نشر سب غلط ہے دلیل یہ پیش کرتے تھے کہ ہمارے باپ دادا مر گئے وہ کیوں دوبارہ جی کر نہیں آئے؟ خیال کیجئے یہ کس قدر بودی اور بے ہودہ دلیل ہے دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا مرنے کے بعد جینا قیامت کو ہو گا نہ کہ دنیا میں پھر لوٹ کر آئیں گے۔ اس دن یہ ظالم جہنم کا ایندھن بنیں گے اس وقت یہ امت اگلی امتوں پر گواہی دے گی اور ان پر ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے۔

پھر اللہ تعالیٰ انہیں ڈرا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے جو عذاب اسی جرم پر اگلی قوموں پر آئے وہ تم پر بھی آ جائیں اور ان کی طرح بے نام و نشان کر دئیے جاؤ۔ ان کے واقعات سورۃ سبا میں گذر چکے ہیں وہ لوگ بھی قحطان کے عرب تھے جیسے یہ عدنان کے عرب ہیں حمیر جو سبا کے تھے وہ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے جیسے فارس کے بادشاہ کو کسریٰ اور روم کے ہر بادشاہ کو قیصر اور مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون اور حبشہ کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا ہے۔

ان میں سے ایک تبع یمن سے نکلا اور زمین پھرتا رہا سمرقند پہنچ گیا ہر جگہ کے بادشاہوں کو شکست دیتا رہا اور اپنا بہت بڑا ملک کر لیا زبردست لشکر اور بےشمار رعایا اس کے ماتحت تھی اس نے حیرہ نامی بستی بسائی یہ اپنے زمانے میں مدینے میں بھی آیا تھا اور یہاں کے باشندوں سے بھی لڑا لیکن اسے لوگوں نے اس سے روکا خود اہل مدینہ کا بھی اس سے یہ سلوک رہا کہ دن کو تو لڑتے تھے اور رات کو ان کی مہمان داری کرتے تھے آخر اس کو بھی لحاظ آ گیا اور لڑائی بند کر دی اس کے ساتھ یہاں کے دو یہودی عالم ہو گئے تھے جو موسیٰ کے سچے دین کے عامل بھی تھے وہ اسے ہر وقت بھلائی برائی سمجھاتے رہتے تھے انہوں نے کہا کہ آپ مدینے کو تاخت وتاراج نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آخر زمانے کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی جگہ ہے۔


پس یہاں سے لوٹ گیا اور ان دونوں عالموں کو اپنے ساتھ لیتا چلا جب یہ مکے پہنچا تو اس نے بیت اللہ کو گرانا چاہا لیکن ان دونوں عالموں نے اسے روکا اور اس پاک گھر کی عظمت و حرمت بیان کی اور کہا کہ اس کے بانی خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ اور اس نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پھر اس کی اصلی عظمت آشکارا ہو جائے گی۔ چنانچہ یہ اپنے ارادے سے باز آیا بلکہ بیت اللہ کی بڑی تعظیم و تکریم کی طواف کیا غلاف چڑھایا اور یہاں سے یمن واپس چلا گیا۔ خود موسیٰ علیہ السلام کے دین میں داخل ہوا اور تمام یمن میں یہی دین پھیلایا اس وقت تک مسیح علیہ السلام کا ظہور نہیں ہوا تھا اور اس زمانے والوں کے لیے یہی سچا دین تھا۔ اس طرح کے واقعات بہت تفصیل سے سیرۃ ابن اسحاق رحمہ اللہ میں موجود ہیں۔ اور حافظ ابن عساکر بھی اپنی کتاب میں بہت تفصیل کے ساتھ لائے ہیں اس میں ہے کہ اس کا پائے تخت دمشق میں تھا اس کے لشکروں کی صفیں دمشق سے لے کر یمن تک پہنچتی تھیں۔

ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ حد لگنے سے گناہ کا کفارہ ہو جاتا ہے یا نہیں؟ اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ تبع ملعون تھا یا نہیں؟ اور نہ مجھے یہ خبر ہے کہ ذوالقرنین نبی تھے یا بادشاہ اور روایت میں ہے کہ یہ بھی فرمایا عزیر پیغمبر تھے یا نہیں؟ [سنن ابوداود:4674،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

[ ابن ابی حاتم ] ‏‏‏‏ دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث کی روایت صرف عبدالرزاق سے ہی ہے اور سند سے مروی ہے کہ عزیر کا نبی ہونا مجھے معلوم نہیں نہ میں یہ جانتا ہوں کہ تبع پر لعنت کروں یا نہیں؟ [تاریخ دمشق501/3] ‏‏‏‏ اسے وارد کرنے کے بعد حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے وہ روایتیں درج کی ہیں جن میں تبع کو گالی دینے اور لعنت کرنے سے ممانعت آئی ہے جیسے کہ ہم بھی وارد کریں گے ان شاءاللہ۔

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ پہلے کافر تھے پھر مسلمان ہو گئے یعنی موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے دین میں داخل ہوئے اور اس زمانے کے علماء کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا۔ بعثت مسیح علیہ السلام سے پہلے کا یہ واقعہ ہے جرہم کے زمانے میں بیت اللہ کا حج بھی کیا غلاف بھی چڑھایا اور بڑی تعظیم و تکریم کی چھ ہزار اونٹ نام اللہ قربان کئے اور بھی بہت بڑا طویل واقعہ ہے جو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور اصل قصہ کا دارومدار سیدنا کعب احبار اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما پر ہے۔ وہب بن منبہ نے بھی اس قصہ کو وارد کیا ہے۔ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس تبع کے قصے کے ساتھ دوسرے تبع کے قصے کو بھی ملا دیا ہے جو ان کے بہت بعد تھا اس کی قوم تو اس کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئی تھی پھر ان کے انتقال کے بعد وہ کفر کی طرف لوٹ گئی۔ اور دوبارہ آگ اور بتوں کی پرستش شروع کر دی۔ جیسے کہ سورۃ سباء میں مذکور ہے اسی کی تفسیر میں ہم نے بھی وہاں اس کی پوری تفصیل لکھ دی ہے فالحمدللہ۔

حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس تبع نے کعبے پر غلاف چڑھایا تھا آپ لوگوں کو منع کرتے تھے کہ اس تبع کو برا نہ کہو یہ درمیان کا تبع ہے اس کا نام اسعد ابو کرب بن ملکیرب یمانی ہے۔ اس کی سلطنت تین سو چھبیس سال تک رہی اس سے زیادہ لمبی مدت ان بادشاہوں میں سے کسی نے نہیں پائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریبًا سات سو سال پہلے اس کا انتقال ہوا ہے مورخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان دونوں موسوی عالموں نے جو مدینے کے تھے انہوں نے جب تبع بادشاہ کو یقین دلایا کہ یہ شہر نبی آخر الزمان احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہجرت گاہ ہے تو اس نے ایک قصیدہ کہا تھا اور اہل مدینہ کو بطور امانت دے گیا تھا جو ان کے پاس ہی رہا اور بطور میراث ایک دوسرے کے ہاتھ لگتا رہا اور اس کی روایت سند کے ساتھ برابر چلی آتی رہی یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اس کے حافظ ابو ایوب خالد بن زید رضی اللہ عنہ تھے اور اتفاق سے بلکہ بہ حکم اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول جلال بھی یہیں ہوا تھا۔ اس قصیدے کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں

«شھدت علی احمد انہ *** رسول من اللہ باری النسیم

فلو مد عمری الی عمرہ *** لکنت وزیر الہ و ابن عم

وجاھدت بالسیف اعداء ہ *** وفرجت عن صدرہ کل غم»
‏‏‏‏


یعنی میری تہ دل سے گواہی ہے کہ احمد مجتبیٰ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ‏‏‏‏ اس اللہ کے سچے رسول ہیں جو تمام جانداروں کا پیدا کرنے والا ہے۔ اگر میں اس کے زمانے تک زندہ رہا تو قسم اللہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاون بن کر رہوں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے تلوار کے ساتھ جہاد کروں گا اور کسی کھٹکے اور غم کو آپ کے پاس تک پھٹکنے نہ دوں گا۔

ابن ابی الدنیا میں ہے کہ دور اسلام میں صفا شہر میں اتفاق سے قبر کھد گئی تو دیکھا گیا کہ دو عورتیں مدفون ہیں جن کے جسم بالکل سالم ہیں اور سرہانے پر چاندی کی ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں سونے کے حروف سے یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ قبر حی اور لمیس کی ہے اور ایک روایت میں ان کے نام حبی اور تماخر ہیں یہ دونوں تبع کی بہنیں ہیں یہ دونوں مرتے وقت تک اس بات کی شہادت دیتی رہیں کہ لائق عبادت صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ دونوں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی تھیں۔ ان سے پہلے کے تمام نیک صالح لوگ بھی اسی شہادت کے ادا کرتے ہوئے انتقال فرماتے رہے ہیں۔ سورۃ سباء میں ہم نے اس واقعہ کے متعلق سبا کے اشعار بھی نقل کر دئیے ہیں۔ ضرت کعب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ تبع کی تعریف قرآن سے اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی مذمت کی ان کی نہیں کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ تبع کو برا نہ کہو وہ صالح شخص تھا ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تبع کو گالی نہ دو وہ مسلمان ہو چکا تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:241/11:ضعیف] ‏‏‏‏

طبرانی اور مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے عبدالرزاق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے معلوم نہیں تبع نبی تھا یا نہ تھا؟ اور روایت میں جو اس سے پہلے گذر چکی کہ میں نہیں جانتا تبع ملعون تھا یا نہیں؟ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ یہی روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں تبع کو گالی نہ دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں برا کہنا منع فرمایا ہے۔ «واللہ تعالیٰ اعلم» ‏‏‏‏۔