قرآن مجيد

سورة الذاريات
كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ[17]
وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے۔[17]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 17، 18، 19، 20، 21، 22، 23،

باب

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے عمل کے اخلاص یعنی ان کے احسان کی تفصیل بیان فرما رہا ہے کہ یہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔

بعض مفسرین کہتے ہیں یہاں «مَا» نافیہ ہے تو بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ یہ مطلب ہو گا کہ ان پر کوئی رات ایسی نہ گزرتی تھی جس کا کچھ حصہ یاد الٰہی میں نہ گزارتے ہوں خواہ اول وقت میں کچھ نوافل پڑھ لیں خواہ درمیان میں یعنی کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی وقت نماز عموماً ہر رات پڑھ ہی لیا کرتے تھے ساری رات سوتے سوتے نہیں گزارتے تھے۔‏‏‏‏

ابوالعالیہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں یہ لوگ مغرب عشاء کے درمیان کچھ نوافل پڑھ لیا کرتے تھے۔‏‏‏‏ امام ابو جعفر باقر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے نہیں سوتے تھے۔‏‏‏‏

بعض مفسرین کا قول ہے کہ «مَا» یہاں موصولہ ہے یعنی ان کی نیند رات کی کم تھی کچھ سوتے تھے کچھ جاگتے تھے اور اگر دل لگ گیا تو صبح ہو جاتی تھی اور پھر پچھلی رات کو جناب باری میں گڑگڑا کر توبہ استغفار کرتے تھے۔‏‏‏‏

احنف بن قیس رحمہ اللہ اس آیت کا یہ مطلب بیان کر کے پھر فرماتے تھے افسوس مجھ میں یہ بات نہیں۔‏‏‏‏ آپ کے شاگرد حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے، جنتیوں کے جو اعمال اور جو صفات بیان ہوئے ہیں، میں جب کبھی اپنے اعمال و صفات کو ان کے مقابلے میں رکھتا ہوں تو بہت کچھ فاصلہ پاتا ہوں۔

لیکن «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» جہنمیوں کے عقائد کے بالمقابل جب میں اپنے عقائد کو لاتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ تو بالکل ہی خیر سے خالی تھے وہ کتاب اللہ کے منکر، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر، وہ موت کے بعد کی زندگی کے منکر، پس ہماری تو حالت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کی بتائی ہے «خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ‌ سَيِّئًا عَسَى اللَّـهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ» [9-التوبة:102] ‏‏‏‏ یعنی ” جنہوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے۔ اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے “۔

زید بن اسلم رحمہ اللہ سے قبیلہ بنو تمیم کے ایک شخص نے کہا: اے ابوسلمہ! یہ صفت تو ہم میں نہیں پائی جاتی کہ ہم رات کو بہت کم سوتے ہوں بلکہ ہم تو بہت کم وقت عبادت اللہ میں گزارتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: وہ شخص بھی بہت ہی خوش نصیب ہے جو نیند آئے تو سو جائے اور جاگے تو اللہ سے ڈرتا رہے۔‏‏‏‏

سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب شروع شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں تشریف لائے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے ٹوٹ پڑے اور اس مجمع میں میں بھی تھا، واللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرہ پر نظر پڑتے ہی اتنا تو میں نے یقین کر لیا کہ یہ نورانی چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلی بات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے کان میں پڑی یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: اے لوگو! کھانا کھلاتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور سلام کیا کرو اور راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں نماز ادا کرو تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔ [سنن ترمذي:2485،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کے اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہے، یہ سن کر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! یہ کن کے لیے ہیں؟ فرمایا: ان کے لیے جو نرم کلام کریں اور دوسروں کو کھلاتے پلاتے رہیں اور جب لوگ سوتے ہوں یہ نمازیں پڑھتے رہیں ۔ [مسند احمد:173/2:حسن لغیرہ] ‏‏‏‏

زہری اور حسن رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ رات کا اکثر حصہ تہجد گزاری میں نکالتے ہیں۔‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ رات کا بہت کم حصہ وہ سوتے ہیں۔‏‏‏‏

ضحاک رحمہ اللہ «كَانُوْا قَلِيلًا» کو اس سے پہلے کے جملے کے ساتھ ملاتے ہیں اور «مِنَ اللَّيْلِ» سے ابتداء بتاتے ہیں لیکن اس قول میں بہت دوری اور تکلف ہے۔

پھر اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے ” سحر کے وقت وہ استغفار کرتے ہیں “۔

مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں یعنی نماز پڑھتے ہیں اور مفسرین فرماتے ہیں راتوں کو قیام کرتے ہیں اور صبح کے ہونے کے وقت اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔‏‏‏‏

جیسے اور جگہ فرمان باری ہے «وَالْمُسْـتَغْفِرِيْنَ بالْاَسْحَارِ» [3-آل عمران:17] ‏‏‏‏ یعنی ” سحر کے وقت یہ لوگ استغفار کرنے لگ جاتے ہیں “۔

اگر یہ استغفار نماز میں ہی ہو تو بھی بہت اچھا ہے، صحاح وغیرہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کی کئی روایتوں سے ثابت ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے کوئی گنہگار ہے؟ جو توبہ کرے اور میں اس کی توبہ قبول کروں، کوئی استغفار کرنے والا ہے؟ جو استغفار کرے اور میں اسے بخشوں، کوئی مانگنے والا ہے؟ جو مانگے اور میں اسے دوں، فجر کے طلوع ہونے تک یہی فرماتا ہے ۔ [صحیح بخاری:1145] ‏‏‏‏

اکثر مفسرین نے فرمایا کہ اللہ کے نبی یقعوب علیہ السلام نے اپنے لڑکوں سے جو فرمایا تھا «سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ» ‏‏‏‏ [12-یوسف:98] ‏‏‏‏ ” میں اب عنقریب تمہارے لیے استغفار کروں گا “، اس سے بھی مطلب یہی تھا کہ سحر کا وقت جب آئے گا تب استغفار کروں گا۔

پھر ان کا یہ وصف بیان کیا جاتا ہے کہ جہاں یہ نمازی ہیں اور حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حق بھی نہیں بھولتے، زکوٰۃ دیتے ہیں، سلوک احسان اور صلہ رحمی کرتے ہیں، ان کے مال میں ایک مقررہ حصہ مانگنے والوں اور ان حقداروں کا ہے جو سوال سے بچتے ہیں۔

ابوداؤد وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سائل کا حق ہے گو وہ گھوڑ سوار ہو، «مَحْرُوْمٌ» وہ ہے جس کا کوئی حصہ بیت المال میں نہ ہو خود اس کے پاس کوئی کام کاج نہ ہو صنعت و حرفت یاد نہ ہو جس سے روزی کما سکے ۔ [سنن ابوداود:1665،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ کچھ سلسلہ کمانے کا کر رکھا ہے لیکن اتنا نہیں پاتے کہ انہیں کافی ہو جائے۔‏‏‏‏

ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ شخص جو مالدار تھا لیکن مال تباہ ہو گیا، چنانچہ یمامہ میں جب پانی کی طغیانی آئی اور ایک شخص کا تمام مال اسباب بہا لے گئی تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ «مَحْرُوْمٌ» ہے۔‏‏‏‏

اور بزرگ مفسرین فرماتے ہیں «مَحْرُوْمٌ» سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے باوجود کسی سے سوال نہیں کرتا۔

ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو گھومتے پھرتے ہیں اور جنہیں ایک دو لقمے یا ایک دو کھجوریں تم دے دیا کرتے وہ بلکہ حقیقتًا وہ لوگ بھی مسکین ہیں جو اتنا نہیں پاتے کہ انہیں حاجت نہ رہے اپنا حال قال ایسا رکھتے ہیں کہ کسی پر ان کی حاجت و افلاس ظاہر ہو اور کوئی انہیں صدقہ دے ۔ [صحیح بخاری:1479] ‏‏‏‏

عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مکے شریف جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کتا پاس آ کر کھڑا ہو گیا آپ نے ذبح کردہ بکری کا ایک شانہ کاٹ کر اس کی طرف ڈال دیا اور فرمایا: لوگ کہتے ہیں یہ بھی «مَحْرُوْمٌ» میں سے ہے۔

شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں تو عاجز آ گیا لیکن «مَحْرُوْمٌ» معنی معلوم نہ کر سکا۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں «مَحْرُوْمٌ» وہ ہے جس کے پاس مال نہ رہا ہو خواہ وجہ کچھ بھی ہو۔ یعنی حاصل ہی نہ کر سکا کمانے کھانے کا سلیقہ ہی نہ ہو یا کام ہی نہ چلتا ہو یا کسی آفت کے باعث جمع شدہ مال ضائع ہو گیا ہو وغیرہ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:458/11] ‏‏‏‏

ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر کافروں کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا، اللہ نے انہیں غلبہ دیا اور مال غنیمت بھی ملا پھر کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ بھی آ گئے جو غنیمت حاصل ہونے کے وقت موجود نہ تھے پس یہ آیت اتری۔ اس کا اقتضاء تو یہ ہے کہ یہ مدنی ہو لیکن دراصل ایسا نہیں بلکہ یہ آیت مکی ہے۔

پھر فرماتا ہے ” یقین رکھنے والوں کے لیے زمین میں بھی بہت سے نشانات قدرت موجود ہیں “، جو خالق کی عظمت و عزت ہیبت و جلالت پر دلالت کرتے ہیں دیکھو کہ کس طرح اس میں حیوانات اور نباتات کو پھیلا دیا ہے اور کس طرح اس میں پہاڑوں، میدانوں، سمندروں اور دریاؤں کو رواں کیا ہے۔ پھر انسان پر نظر ڈالو ان کی زبانوں کے اختلاف کو ان کے رنگ و روپ کے اختلاف کو ان کے ارادوں اور قوتوں کے اختلاف ہو ان کی عقل و فہم کے اختلاف کو ان کی حرکات و سکنات کو ان کی نیکی بدی کو دیکھو ان کی بناوٹ پر غور کرو کہ ہر عضو کیسی مناسب جگہ ہے۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا ” خود تمہارے وجود میں ہی اس کی بہت سی نشانیاں ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟ “

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص اپنی پیدائش میں غور کرے گا اپنے جوڑوں کی ترکیب پر نظر ڈالے گا وہ یقین کر لے گا کہ بیشک اسے اللہ نے ہی پیدا کیا اور اپنی عبادت کے لیے ہی بنایا ہے۔

پھر فرماتا ہے ” آسمان میں تمہاری روزی ہے یعنی بارش اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یعنی جنت “۔

واصل احدب رحمہ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: افسوس میرا رزق تو آسمانوں میں ہے اور میں اسے زمین میں تلاش کر رہا ہوں؟ یہ کہہ کر بستی چھوڑی اجاڑ جنگل میں چلے گئے۔ تین دن تک تو انہیں کچھ بھی نہ ملا لیکن تیسرے دن دیکھتے ہیں کہ تر کھجوروں کا ایک خوشہ ان کے پاس رکھا ہوا ہے۔ ان کے بھائی ساتھ ہی تھے دونوں بھائی آخری دم تک اسی طرح جنگلوں میں رہے۔

پھر اللہ کریم خود اپنی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ ” میرے جو وعدے ہیں مثلاً قیامت کے دن دوبارہ جلانے کا، جزا سزا کا، یہ یقیناً سراسر سچے اور قطعًا بے شبہ ہو کر رہنے والے ہیں، جیسے تمہاری زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں شک نہیں ہوتا اسی طرح تمہیں ان میں بھی کوئی شک ہرگز ہرگز نہ کرنا چاہیئے “۔

سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ جب کوئی بات کہتے تو فرماتے: یہ بالکل حق ہے جیسے کہ تیرا یہاں ہونا حق ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ انہیں برباد کرے جو اللہ کی قسم کو بھی نہ مانیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:32191:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث مرسل ہے یعنی تابعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ صحابی رضی اللہ عنہ کا نام نہیں لیتے۔