باب: رمضان کے دنوں میں روزہ دار پر ہم بستری کی سخت حرمت اور اس کے کفارہ کے وجوب کا بیان، اور یہ کفارہ مالدار اور تنگ دست دونوں پر واجب ہے، اور تنگ دست کے ذمے اس وقت واجب ہو گا جب وہ اس کی طاقت رکھتا ہو۔
Chapter: The strict prohibition of intercourse during the day in Ramadan for one who is fasting; And the obligation of offering major expiation and the definition thereof; And that it is obligatory for both the one who can afford it and the one who cannot afford it, and it remains an obligation for the one who cannot afford it until he has the means
حدثنا يحيى بن يحيى ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وابن نمير كلهم، عن ابن عيينة ، قال يحيى: اخبرنا سفيان بن عيينة، عن الزهري ، عن حميد بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: هلكت يا رسول الله، قال: " وما اهلكك؟ "، قال: وقعت على امراتي في رمضان، قال: " هل تجد ما تعتق رقبة؟ "، قال: لا، قال: " فهل تستطيع ان تصوم شهرين متتابعين؟ "، قال: لا، قال: " فهل تجد ما تطعم ستين مسكينا؟ "، قال: لا، قال: ثم جلس، " فاتي النبي صلى الله عليه وسلم بعرق فيه تمر "، فقال: " تصدق بهذا "، قال: افقر منا فما بين لابتيها اهل بيت احوج إليه منا، " فضحك النبي صلى الله عليه وسلم، حتى بدت انيابه "، ثم قال: " اذهب فاطعمه اهلك "،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ كُلُّهُمْ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَلَكْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " وَمَا أَهْلَكَكَ؟ "، قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: " هَلْ تَجِدُ مَا تُعْتِقُ رَقَبَةً؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَجِدُ مَا تُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ، " فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ "، فَقَالَ: " تَصَدَّقْ بِهَذَا "، قَالَ: أَفْقَرَ مِنَّا فَمَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنَّا، " فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ "، ثُمَّ قَالَ: " اذْهَبْ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا کہ میں ہلاک ہو گیا، یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کس نے ہلاک کیا تجھ کو۔ اس نے عرض کی کہ میں اپنی بیوی پر جا پڑا رمضان میں (یعنی جماع کر بیٹھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ایک غلام یا لونڈی آزاد کر سکتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو مہینے کے روزے برابر رکھ سکتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھلا سکتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، پھر وہ بیٹھا رہا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا کھجور کا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا اس کو صدقہ دے دے مسکینوں کو۔“ اس نے کہا کہ مجھ سے بڑھ کر کوئی مسکین ہے؟ مدینہ کے دونوں کنکریلی کالے پتھروں والی زمینوں کے بیچ میں کہ ان مین کوئی گھر والا مجھ سے بڑھ کر محتاج نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچلیاں کھل گئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے اس کو اور کھلا اپنے گھر والوں کو۔“
محمد بن مسلم زہری نے اسی اسناد سے یہی حدیث روایت کی جیسے ابن عیینہ نے روایت کی اور کہا: اس میں ایک عرق (یعنی ٹوکرا) اور وہ ہی زنبیل ہے اور اس میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی کا ذکر نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک شخص جماع کر بیٹھا رمضان میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ایک غلام یا لونڈی آزاد کر سکتا ہے؟“ اس نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے؟“ اس نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔“
وحدثنا محمد بن رافع ، حدثنا إسحاق بن عيسى ، اخبرنا مالك ، عن الزهري بهذا الإسناد " ان رجلا افطر في رمضان فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يكفر بعتق رقبة "، ثم ذكر بمثل حديث ابن عيينة.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ " أَنَّ رَجُلًا أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُكَفِّرَ بِعِتْقِ رَقَبَةٍ "، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا ایک شخص کو کہ اس نے روزہ توڑ ڈالا تھا رمضان میں کہ آزاد کرے ایک بردہ یا روزے رکھے دو ماہ یا کھلائے ساٹھ مسکینوں کو۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا کہ میں جل گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں؟“ اس نے عرض کی کہ میں نے جماع کیا رمضان شریف میں اپنی عورت سے دن کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ دے، صدقہ دے۔“ اس نے عرض کی کہ میرے پاس تو کچھ موجود نہیں ہے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو گونیاں آئیں کھانے کو (یعنی غلہ یا کھجور کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے یہ صدقہ کر دے۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور اس حدیث کو ذکر کیا اخیر تک جیسے اوپر گزری مگر اس کے اول میں ”صدقہ دے، صدقہ دے۔“ نہیں ہے اور نہ دن کا لفظ ہے۔
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، ان عبد الرحمن بن القاسم ، حدثه، ان محمد بن جعفر بن الزبير حدثه، ان عباد بن عبد الله بن الزبير حدثه، انه سمع عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: اتى رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد في رمضان، فقال: يا رسول الله احترقت احترقت، فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما شانه؟، فقال: اصبت اهلي، قال: تصدق، فقال والله يا نبي الله مالي شيء وما اقدر عليه، قال: اجلس، فجلس فبينا هو على ذلك، اقبل رجل يسوق حمارا عليه طعام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اين المحترق آنفا؟، فقام الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تصدق بهذا، فقال: يا رسول الله اغيرنا، فوالله إنا لجياع ما لنا شيء، قال: فكلوه ".حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ احْتَرَقْتُ احْتَرَقْتُ، فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا شَأْنُهُ؟، فَقَالَ: أَصَبْتُ أَهْلِي، قَالَ: تَصَدَّقْ، فَقَالَ وَاللَّهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَالِي شَيْءٌ وَمَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ، قَالَ: اجْلِسْ، فَجَلَسَ فَبَيْنَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ، أَقْبَلَ رَجُلٌ يَسُوقُ حِمَارًا عَلَيْهِ طَعَامٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا؟، فَقَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ بِهَذَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغَيْرَنَا، فَوَاللَّهِ إِنَّا لَجِيَاعٌ مَا لَنَا شَيْءٌ، قَالَ: فَكُلُوهُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں رمضان میں اور عرض کی یا رسول اللہ! میں جل گیا، میں جل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا حال ہے اس کا۔“ اس نے عرض کی کہ میں نے اپنی بی بی سے صحبت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ دے۔“ اس نے عرض کی کہ قسم اللہ کی! اے نبی اللہ کے! میرے پاس کچھ نہیں ہے اور نہ میں کچھ دے سکتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ۔“ وہ بیٹھ گیا اور وہ اسی حال میں تھا کہ ایک آدمی آیا اور ایک گدھے کو ہانکتا ہوا لایا کہ اس پر کچھ غلہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جلنے ولا کہاں ہے جو ابھی یہاں تھا؟“ اور وہ کھڑا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے اس کو صدقہ دے۔“ اس نے عرض کی کہ کیا میرے سوا اس کا مستحق کوئی اور ہے؟ اللہ کی قسم! ہم لوگ بھوکے ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لو اسے کھاؤ۔“