قیامت کو «حاقة» بھی کہتے ہیں کیونکہ اس دن بدلہ ملے گا اور وہ کام ہوں گے جو ثابت اور حق ہیں۔ «حقة» اور «حاقة» کے ایک ہی معنی ہیں اور «قارعة» اور «غاشية» اور «صاخة» بھی قیامت ہی کو کہتے ہیں۔ اسی طرح «يوم التغابن» بھی کیونکہ اس دن جنتی کافروں کی جائیداد دبا لیں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: Q6533]
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے شقیق نے بیان کیا، کہا میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ لوگوں کے درمیان ہو گا وہ ناحق خون کے بدلہ کا ہو گا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6533]
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہئے کہ اس سے (اس دنیا میں) معاف کرا لے۔ اس لیے کہ آخرت میں روپے پیسے نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے (معاف کرا لے) کہ اس کے بھائی کے لیے اس کی نیکیوں میں سے حق دلایا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس (مظلوم) بھائی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6534]
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا اس آیت کے بارے میں «ونزعنا ما في صدورهم من غل» کہا کہ ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مومنین جہنم سے چھٹکارا پا جائیں گے لیکن دوزخ و جنت کے درمیان ایک پل پر انہیں روک لیا جائے گا اور پھر ایک کے دوسرے پر ان مظالم کا بدلہ لیا جائے گا جو دنیا میں ان کے درمیان آپس میں ہوئے تھے اور جب کانٹ چھانٹ کر لی جائے گی اور صفائی ہو جائے گی تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔ پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! جنتیوں میں سے ہر کوئی جنت میں اپنے گھر کو دنیا کے اپنے گھر کے مقابلہ میں زیادہ بہتر طریقے پر پہچان لے گا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6535]