عبد الرحمان بن ابی سعید نے (اپنے والد) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو آگے سے نہ گزرنے دے اور جہاں تک ممکن ہو اس کو ہٹائے اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔“(مقصود یہ تھا کہ لوگوں کو اس گناہ سے ہر قیمت پر بچایا جائے اور نماز کی حرمت کا اہتمام کیا جائے۔)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھا رہا ہو تو کسی کو آگے سے نہ گزرنے دے، جہاں تک ممکن ہو، اس کو دفع کرے (ہٹائے) اگر وہ نہ مانے (باز نہ آئے) تو اس سے لڑے (زور سے دھکا دے) کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
۔ ابن ہلال، یعنی حمید نے کہا: ایک دن میں اور میرا ایک ساتھی ایک حدیث کے بارے میں مذاکرہ کر رہے تھے کہ ابو صالح سمان کہنے لگے: میں تمہیں حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے سنی اور (ان کا عمل) جو ان سے دیکھا۔ کہا: ایک موقع پر، جب میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کےساتھ تھا اور وہ جمعہ کے دن کسی چیز کی طرف (رخ کر کے)، جو انہیں لوگوں سے ستر ہ مہیا کر رہی تھی، نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں ابو معیط کے خاندان کا ایک نوجوان آیا، اس نے ان کے آگے سے گزرنا چاہا تو انہوں نے اسے اس کے سینے سے (پیچھے) دھکیلا۔ اس نے نظر دوڑائی، اسے ابو سعید رضی اللہ عنہ کے سامنے سے (گزرنے) کے سوا کوئی راستہ نہ ملا، اس نے دوبارہ گزرنا چاہا تو انہوں نے اسے پہلی دفعہ سے زیادہ شدت کے ساتھ اس کے سینے سے پیچھے دھکیلا، وہ سیدھا کھڑا ہو گیا اور ابو سعید رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا، پھر لوگوں کی بھیڑ میں گھستا ہوا نکل کر مروان کےسامنے پہنچ گیا اور جو ان کے ساتھ بیتی تھی اس کی شکایت کی، کہا: ابو سعید رضی اللہ عنہ بھی مروان کے پاس پہنچ گئے تو اس نے ان سے کہا: آپ کا اپنے بھتیجے کا ساتھ کیا معاملہ ہے؟ وہ آ کر آپ کی شکایت کر رہا ہے۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ” جب تم میں سے کوئی لوگوں سے کسی چیز کی اوٹ میں نماز پڑھے اور کوئی اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ اسے اس کے سینے سے دھکیلے اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ یقیناً شیطان ہے۔“
حضرت ابن ہلال رحمتہ اللہ علیہ (یعنی حمید) بیان کرتے ہیں کہ اسی دوران میں اور میرا ساتھی، ایک حدیث کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ ابو صالح سمان نے کہا، میں تمہیں ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہوئی حدیث اور ان کا عمل بتاتا ہوں، میں ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا اور وہ جمعہ کے دن کسی چیز کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں ابو معیط کے خاندان کا ایک نوجوان آیا اور اس نے ان کے آگے سے گزرنا چاہا تو انہوں نے اس کے سینہ پر مارا، اس نے نظر لڑائی تو اسے ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کے سوا کوئی راستہ نہ ملا تو اس نے دوبارہ گزرنا چاہا تو انہوں نے پہلی دفعہ سے زیادہ شدت سے اس کے سینہ پر ہاتھ مارا، یعنی زور سے دھکا دیا تو وہ سیدھا کھڑا ہو گیا، اور ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن وجہ تشنیع کرنے لگا، پھر لوگوں کی بھیڑ میں داخل ہو گیا، اور نکل کر مروان کے پاس گیا اور اپنی تکلیف کی اس سے شکایت کی اور ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مروان کے پاس پہنچ گئے تو اس نے ان سے کہا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنے بھتیجے کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ وہ آ کر آپ کی شکایت کر رہا ہے تو ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی لوگوں سے کسی چیز کی اوٹ میں نماز پڑھے، اور کوئی اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ اس کے سینہ پر مارے (دھکا دے) اگر وہ نہ مانے (گزرنے سے باز نہ آئے) تو اس سے لڑے (زور اور طاقت استعمال کرے) کیونکہ وہ شیطان ہے (یعنی سرکش اور شریر ہے)۔
اسماعیل بن ابی فدیک نے ضحاک بن عثمان سے، انہوں نے صدقہ بن یسار سے، اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے، اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے کیونکہ اس کی معیت میں (اس کا) ہمراہی (شیطان) ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے، اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے (زور آزمائی کرے) کیونکہ اس کے ساتھ ہمزاد ہے۔“
۔ (ابن ابی فدیک کے بجائے) ابو بکر حنفی نے ضحاک بن عثمان سے اسی (مذکورہ) سند کےساتھ روایت کی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ... آگے سابقہ حدیث کے مانند ہے
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
۔ امام مالک کے ابو نضر سے اور انہوں نے بسر بن سعید سے روایت کی کہ زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے انہیں ابو جہیم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا تاکہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا تھا؟ ابو جہیم رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر کس قدر (گناہ) ہے تو اسے چالیس (سال) تک کھڑے رہنا، اس کے آگے گزرنے سے بہتر (معلوم) ہو۔“ ابو نضر نے کہا: مجھے معلوم نہیں، انہوں نے چالیس دن کہا یا ماہ یا سال۔ (مسند بزار میں چالیس سال کے الفاظ ہیں۔)
حضرت بسر بن سعید رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ابو جہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھیجا کہ ان سے پوچھوں کہ اس نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ ابو جہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے (استحضار کر لے) کہ اس پر (اس عمل کا گناہ) کس قدر ہے تو اس کے لیے چالیس تک ٹھہرے رہنا اس کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہو۔“ ابو نضر کہتے ہیں، مجھے معلوم نہیں انہوں نے چالیس دن کہا یا ماہ یا سال کہا۔
سفیان نے ابو نضر سالم سے اور انہوں نے بسر بن سعید سے روایت کی کہ زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے (انہیں) ابو جہیم انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا (تاکہ پوچھے) کہ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فرماتے سنا .... پھر (سفیان نے) مالک کی روایت کے ہم معنیٰ حدیث بیان کی۔
ہمیں عبداللہ بن ہاشم بن حیان عبدی نے وکیع کے واسطہ سے سفیان کی ابو نضر سالم سے بسر بن سعید کی روایت سنائی کہ زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ابو جہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا کہ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فرماتے سنا: پھر مالک کی روایت کی طرح حدیث بیان کی۔