عبدالعزیز بن محمد نے عبدالواحد بن حمزہ سے اور انھوں نے عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد میں سے گزارا جائے (تاکہ) وہ بھی ان کا جنازہ ادا کرسکیں۔آپ کی بات پر لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لوگ کس قدر جلد بھول گئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بدری صحابی) سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔
عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکم دیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں سے گزارا جائے (تاکہ) وہ بھی ان کا جنازہ ادا کر سکیں۔ آپ کی بات پر لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: لوگ کس قدر جلد بھول گئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بدری صحابی) سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔
موسیٰ بن عقبہ نے عبدالواحد سے اور انھوں نے عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت کی، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کے جنازے کو مسجد میں سے گزار کرلے جائیں تا کہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ ادا کرسکیں تو انھوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے ایسا ہی کیا، اس جنازے کو ان کے حجروں کے سامنے روک (کررکھ) دیا گیا (تاکہ) وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ (پھر) اس (جنازے) کو باب الجنائز سے، جو مقاعد کی طرف (کھلتا) تھا، باہر نکالا گیا۔اس کے بعد ان (ازواج) کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں نے معیوب سمجھا ہے اور کہا ہے: جنازوں کو مسجد میں نہیں لایا جاتا تھا۔یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا: لوگوں نےاس کام کو معیوب سمجھنے میں کتنی جلدی کی جس کا انھیں علم نہیں!انھوں نے ہماری اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ جنازہ مسجد میں لایاجائے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا۔
عباد بن عبداللہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ پڑھیں لوگوں نے ایسے یہ کیا ہی کیا، جنازہ ان کے حجروں کے سامنے رکھ دیا گیا تاکہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ پھراسے باب الجنائز سے،جو مقاعد بیٹھنے کی جگہیں) کے قریب تھا سے نکالا گیا۔ اور انہیں پتہ چلاکہ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے جنازوں کو مسجد میں نہیں لایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک بھی اعتراض پہنچا تو انہوں نے فرمایا: کس قدر جلدی لوگ اس کام پر اعتراض کرنے لگٰے ہیں جس کا انہیں علم ہی نہیں ہے ہم پر جنازہ مسجد میں لانے پرعیب (نکتہ چینی) حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا۔
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ جب حضر ت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ان کو مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی انکی نماز جنازہ ادا کرسکوں۔ان کی اس بات پر اعتراض کیا گیا تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی (سہل) رضوان اللہ عنھم اجمعین کا جنازہ مسجد میں ہی پڑھا تھا۔ امام مسلم ؒ نے کہا: سہیل بن دعد، جو ابن بیضاء ہے، اس کی ماں بیضاء تھیں۔ (بیضاء کا اصل نام دعد تھا، سہیل کے والد کا نام وہب بن ربیعہ تھا، اسے شرف صحبت حاصل نہ ہوا۔)
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ جب حضر ت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: ان کو مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز جنازہ پڑھوں۔ ان پر اعتراض کیا گیا ا س پر انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی رضوان اللہ عنھم اجمعین کا جنازہ مسجد میں ہی پڑھا تھا۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، سہیل بن دعد ہی بیضاء کے بیٹے ہیں۔ بیضاء ماں کا نام ہے، اصل نام دعد ہے، بیضاء کے نام سے معروف تھیں اور دوسرے بیٹے کا نام صفوان ہے۔