الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ
قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
10. باب صِحَّةِ الإِقْرَارِ بِالْقَتْلِ وَتَمْكِينِ وَلِيِّ الْقَتِيلِ مِنَ الْقِصَاصِ وَاسْتِحْبَابِ طَلَبِ الْعَفْوِ مِنْهُ:
10. باب: قتل کا اقرار صحیح ہے اور قاتل کو مقتول کے ولی کے حوالہ کر دیں گے اور اس سے معافی کی درخواست کرنا مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 4387
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ حَدَّثَهُ: أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: " إِنِّي لَقَاعِدٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ بِنِسْعَةٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا قَتَلَ أَخِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَتَلْتَهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَوْ لَمْ يَعْتَرِفْ أَقَمْتُ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةَ؟، قَالَ: نَعَمْ قَتَلْتَهُ، قَالَ: كَيْفَ قَتَلْتَهُ؟، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَهُوَ نَخْتَبِطُ مِنْ شَجَرَةٍ، فَسَبَّنِي، فَأَغْضَبَنِي، فَضَرَبْتُهُ بِالْفَأْسِ عَلَى قَرْنِهِ فَقَتَلْتُهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَكَ مِنْ شَيْءٍ تُؤَدِّيهِ عَنْ نَفْسِكَ؟، قَالَ: مَا لِي مَالٌ إِلَّا كِسَائِي وَفَأْسِي، قَالَ: فَتَرَى قَوْمَكَ يَشْتَرُونَكَ؟، قَالَ: أَنَا أَهْوَنُ عَلَى قَوْمِي مِنْ ذَاكَ، فَرَمَى إِلَيْهِ بِنِسْعَتِهِ، وَقَالَ: دُونَكَ صَاحِبَكَ، فَانْطَلَقَ بِهِ الرَّجُلُ، فَلَمَّا وَلَّى قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ، فَرَجَعَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ قُلْتَ إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ، وَأَخَذْتُهُ بِأَمْرِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا تُرِيدُ أَنْ يَبُوءَ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ؟، قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَعَلَّهُ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ ذَاكَ كَذَاكَ "، قَالَ: فَرَمَى بِنِسْعَتِهِ وَخَلَّى سَبِيلَهُ.
سماک بن حرب نے علقمہ بن وائل سے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے انہیں حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص دوسرے کو مینڈھی کی طرح بنی ہوئی چمڑے کی رسی سے کھینچتے ہوئے لایا اور کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم نے اسے قتل کیا ہے؟" تو اس (کھینچنے والے) نے کہا: اگر اس نے اعتراف نہ کیا تو میں اس کے خلاف شہادت پیش کروں گا۔ اس نے کہا: جی ہاں، میں نے اُسے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تم نے اسے کیسے قتل کیا؟" اس نے کہا: میں اور وہ ایک درخت سے پتے چھاڑ رہے تھے، اس نے مجھے گالی دی اور غصہ دلایا تو میں نے کلہاڑی سے اس کے سر کی ایک جانب مارا اور اسے قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے جو تم اپنی طرف سے (بطور فدیہ) ادا کر سکو؟" اس نے کہا: میرے پاس تو اوڑھنے کی چادر اور کلہاڑی کے سوا اور کوئی مال نہیں ہے۔ آپ نے پوچھا: "تم سمجھتے ہو کہ تمہاری قوم (تمہاری طرف سے دیت ادا کر کے) تمہیں خرید لے گی؟" اس نے کہا: میں اپنی قوم کے نزدیک اس سے حقیر تر ہوں۔ آپ نے اس (ولی) کی طرف رسہ پھینکتے ہوئے فرمایا: "جسے ساتھ لائے تھے اسے پکڑ لو۔" وہ آدمی اسے لے کر چل پڑا۔ جب اس نے رخ پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس آدمی نے اسے قتل کر دیا تو وہ بھی اسی جیسا ہے۔" اس پر وہ شخص واپس ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو وہ بھی اسی جیسا ہے" حالانکہ میں نے اسے آپ کے حکم سے پکڑا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرامای: "کیا تم نہیں چاہتے کہ وہ تمہارے اور تمہارے ساتھی (بھائی) دونوں کے گناہ کو (اپنے اوپر) لے کر لوٹے؟" اس نے کہا: اللہ کے نبی!۔۔ غالبا اس نے کہا۔۔ کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو یقینا وہ (قاتل) یہی کرے گا۔" کہا: اس پر اس نے رسہ پھینکا اور اس کا راستہ چھوڑ دیا
علقمہ بن وائل اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو ایک تسمہ سے کھینچتے ہوئے لایا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! اس نے میرا بھائی قتل کر ڈالا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو نے اسے قتل کیا ہے؟ تو پہلے آدمی نے کہا اگر یہ اعتراف نہیں کرے گا تو میں اس کے خلاف شہادت پیش کروں گا، قاتل نے کہا، جی ہاں، میں نے اسے قتل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے اسے کیسے قتل کیا ہے؟ اس نے کہا، میں اور وہ ایک درخت سے پتے جھاڑ رہے تھے تو اس نے مجھے گالی دے کر غضبناک کر دیا، (اشتعال میں آ کر) میں نے اس کے سر پر کلہاڑی مار دی اور اسے قتل کر ڈالا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تیرے پاس اپنی جان بچانے کے لیے کچھ دینے کے لیے موجود ہے؟ اس نے کہا، میرے پاس میری لوئی اور کلہاڑی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیری قوم تیرا فدیہ دینے کے لیے تیار ہو جائے گی؟ اس نے کہا، میری قوم میں میری اتنی عزت و مقام نہیں ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تسمہ مقتول کے وارث کی طرف پھینکا اور فرمایا: اپنے مجرم کو لے لو۔ تو وہ آدمی اسے لے کر چل پڑا جب وہ پشت پھیر کر چل دیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اس جیسا ہو گا۔ وارث واپس لوٹ آیا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! مجھے خبر ملی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، اگر اس نے قتل کر دیا تو یہ بھی اس جیسا ہے۔ حالانکہ میں نے اسے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر پکڑا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ یہ تیرا اور تیرے ساتھی کا گناہ اٹھائے؟ اس نے کہا، اے اللہ کے نبی! ایسے ہو گا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، یہ ایسے ہی ہے۔ تو اس نے اس کا تسمہ پھینک دیا اور اسے آزاد کر دیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1680
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4388
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَتَلَ رَجُلًا، فَأَقَادَ وَلِيَّ الْمَقْتُولِ مِنْهُ، فَانْطَلَقَ بِهِ، وَفِي عُنُقِهِ نِسْعَةٌ يَجُرُّهَا، فَلَمَّا أَدْبَرَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ "، فَأَتَى رَجُلٌ الرَّجُلَ، فَقَالَ لَهُ: مَقَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَلَّى عَنْهُ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَشْوَعَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا سَأَلَهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُ فَأَبَى.
اسماعیل بن سالم نے علقمہ بن وائل سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا جس نے کسی شخص کو قتل کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی کو اس سے قصاص لینے کا حق دیا، وہ اسے لے کر چلا جبکہ اس کی گردن میں چمڑے کا ایک مینڈھی نما رسہ تھا جسے وہ کھینچ رہا تھا، جب اس نے پشت پھیری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قاتل اور مقتول (دونوں) آگ میں ہیں۔" (یہ سن کر) ایک آدمی اس (ولی) کے پاس آیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتائی تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ اسماعیل بن سالم نے کہا: میں نے یہ حدیث حبیب بن ثابت سے بیان کی تو انہوں نے کہا: مجھے ابن اشوع نے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (ولی) سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے معاف کر دے تو اس نے انکار کر دیا تھا
حضرت وائل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا، جس نے دوسرے آدمی کو قتل کر ڈالا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی کو اس سے قصاص لینے کا حکم دے دیا، وہ اسے لے کر چلا اور قاتل کی گردن میں ایک تسمہ تھا، جس سے وہ اسے کھینچ رہا تھا، جب وارث نے پشت پھیر لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں ہوں گے۔ تو ایک آدمی نے آ کر وارث آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتائی تو اس نے اس کو چھوڑ دیا، اسماعیل بن سالم بیان کرتے ہیں میں نے یہ حدیث حبیب بن ابی ثابت کو بتائی تو اس نے کہا، مجھے ابن اشوع نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولی مقتول سے معاف کرنے کی سفارش کی تھی اور اس نے انکار کر دیا تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1680
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة