ثابت بنانی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب عبداللہ بن ابی طلہ پیدا ہوئے تو میں انھیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دھاری دارعبا (چادر) زیب تن فرمائے اپنے ایک اونٹ کو (خارش سے نجات دلانے کے لئے) گندھک (یاکول تار) لگارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کچھ کھجور ساتھ ہے؟میں نے عرض کی: جی ہاں، پھر میں نے آپ کو کچھ کھجوریں پیش کیں، آپ نے ان کو اپنے منہ میں ڈالا، انھیں چبایا، پھر بچے کامنہ کھول کر ان کو اپنے دہن مبارک سے براہ راست اس کے منہ میں ڈال دیا۔بچے نے زبان ہلاکر اس کاذائقہ لینا شروع کردیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ انصار کی کھجوروں سے محبت ہے۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں عبداللہ بن ابی طلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو جب وہ پیدا ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر میں اپنے اونٹ کو گندھک مل رہے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کھجوریں ہیں؟“ میں نے کہا، جی ہاں تو میں نے آپ کو چند خشک کھجوریں پکڑائیں اور آپ نے انہیں منہ میں ڈال لیا اور انہیں چبایا، پھر بچے کا منہ کھولا اور انہیں اس کے منہ میں ڈال دیا تو بچہ انہیں چوسنے لگا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار کی محبوب چیز کھجوریں ہیں۔“ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔
یزید بن ہارون نے کہا: ہمیں ابن عون نے ابن سیرین سے خبر دی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا؛ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا بیمار تھا، وہ باہر گئے ہوئے تھے کہ وہ لڑکا فوت ہو گیا۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے پوچھا کہ میرا بچہ کیسا ہے؟ (ان کی بیوی) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اب پہلے کی نسبت اس کو آرام ہے (یہ موت کی طرف اشارہ ہے اور کچھ جھوٹ بھی نہیں)۔ پھر ام سلیم شام کا کھانا ان کے پاس لائیں تو انہوں نے کھایا۔ اس کے بعد ام سلیم سے صحبت کی۔ جب فارغ ہوئے تو ام سلیم نے کہا کہ جاؤ بچہ کو دفن کر دو۔ پھر صبح کو ابوطلحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب حال بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے رات کو اپنی بیوی سے صحبت کی تھی؟ ابوطلحہ نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ ان دونوں کو برکت دے۔ پھر ام سلیم کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو ابوطلحہ نے مجھ سے کہا کہ اس بچہ کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جا اور ام سلیم نے بچے کے ساتھ تھوڑی کھجوریں بھی بھیجیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے لیا اور پوچھا کہ اس کے ساتھ کچھ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ کھجوریں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کو لے کر چبایا، پھر اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال کر اسے گٹھی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بچہ بیمار تھا، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے باہر گئے تو بچہ کی روح قبض کر لی گئی، جب ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آئے تو انہوں نے پوچھا، میرے بیٹے کا کیا بنا؟ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، وہ پہلے سے زیادہ پرسکون ہے اور انہیں شام کا کھانا پیش کیا، انہوں نے وہ کھا لیا، پھر اس سے تعلقات قائم کیے، جب وہ فارغ ہو گئے تو انہیں کہا، بچے کو دفن کر دیجئے، جب صبح ہوئی تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا، آپ نے پوچھا ”آج رات تم تعلقات قائم کر چکے ہو؟“ اس نے کہا، جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت سے نواز۔“ تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک بچہ جنا اور مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اسے اٹھا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ تو وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کے ساتھ خشک کھجوریں بھیجیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو پکڑ کر پوچھا ”کیا اس کے ساتھ کوئی اور چیز ہے؟“ حاضرین نے کہا، جی ہاں، چھوہارے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لے کر چبایا، پھر انہیں اپنے منہ سے نکالا اور انہیں بچے کے منہ میں ڈال دیا، پھر اسے گھٹی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حماد بن مسعدہ نے کہا: ہمیں ابن عون نے محمد (ابن سیرین) سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اسی قصے کے ساتھ یزید کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
امام صاحب کو یہی روایت، واقعہ سمیت ایک اور استاد نے سنائی۔
حضرت ابوموسیٰ علیہ السلام سے روایت ہے، کہا: میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، میں اس کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اس کو ایک کھجور (کے دانے) سے گھٹی دی۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو میں اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور کی گھٹی دی۔
شعیب بن اسحاق نے کہا؛مجھے ہشام بن عروہ نے بتایا، کہا: مجھے عروہ بن زبیر اور فاطمہ بنت منذر بن زبیر نے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا (مکہ سے) ہجرت کی نیت سے جس وقت نکلیں، ان کے پیٹ میں عبداللہ بن زبیر تھے (یعنی حاملہ تھیں) جب وہ قباء میں آ کر اتریں تو وہاں سیدنا عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے۔ پھر ولادت کے بعد انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو گھٹی لگائیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے لے لیا اور اپنی گود میں بٹھایا، پھر ایک کھجور منگوائی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم ایک گھڑی تک کھجور ڈھونڈتے رہے، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو چبایا، پھر (اس کا جوس) ان کے منہ میں ڈال دیا۔ یہی پہلی چیز جو عبداللہ کے پیٹ میں پہنچی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوک تھا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لئے دعا کی اور ان کا نام عبداللہ رکھا۔ پھر جب وہ سات یا آٹھ برس کے ہوئے تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے اشارے پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کے لئے آئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آتے دیکھا تو تبسم فرمایا۔ پھر ان سے (برکت کے لئے) بیعت کی (کیونکہ وہ کمسن تھے)۔
حضرت عروہ بن زبیر اور فاطمہ بنت منذر بیان کرتے ہیں، ہجرت کے موقعہ پر حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا کے پیٹ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ تھے، وہ قباء پہنچیں تو وہاں عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہو گئے تو وہ اسے لے کر گھٹی دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے اسے اس سے پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا لیا، پھر کھجوریں منگوائیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، ہم کھجوریں ملنے سے پہلے کچھ دیر انہیں تلاش کرتے رہے، آپ نے انہیں چبایا، پھر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیا تو سب سے پہلے اس کے پیٹ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن داخل ہوا، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، پھر آپ نے اس پر ہاتھ پھیرا، اس کے حق میں دعا فرمائی اور اس کا نام عبداللہ رکھا، پھر وہ سات یا آٹھ سال کی عمر میں اپنے باپ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر مسکرائے، پھر ان سے بیعت کر لی۔
ابو اسامہ نے ہشام سے، انھوں نے ا پنے والد سے، انھوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ مکہ میں حاملہ ہوئیں، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان کے پیٹ میں تھے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہاکہ جب میں (مکہ سے) نکلی تو میں پورے دنوں سے تھی، پھر میں مدینہ آئی اورقباء میں ٹھہری اور قباء میں نے اسے (عبداللہ) کو جنم دیا، پھر میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اسے اپنی گود میں لے لیا، پھر آپ نے کھجور منگوائی، اسے چبایا۔پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیا، پہلی چیز جو اس کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالعاب دہن تھا، پھر آپ نے (چبائی ہوئی) کھجور کی گھٹی اس کے تالو کولگائی، پھر میں کے لئے دعا کی، برکت مانگی، (ہجرت مدینہ کے بعد) یہ پہلا بچہ تھا جو اسلام میں پیدا ہوا۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، انہیں مکہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حمل ٹھہرا اور میں پورے دنون ہجرت کے لیے نکلی، میں نے مدینہ پہنچ کر قباء میں قیام کیا تو وہ قباء میں پیدا ہو گئے، پھر میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا، پھر آپ نے چھوہارے منگوا لیے اور انہیں چبایا، پھر انہیں اس کے منہ میں لعاب دہن ڈال دیا تو سب سے پہلی جو چیز اس کے پیٹ میں داخل ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن تھا، پھر آپ نے اسے کھجوروں کی گھٹی دی، پھر اس کے لیے دعا کی اور ان کے لیے برکت کی درخواست کی اور وہ (ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے) پہلے بچے تھے جو مہاجرین کے ہاں پیدا ہوئے۔
علی بن مسہر نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی، اس وقت وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سےحاملہ تھیں، پھر ابو اسامہ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی جبکہ انہیں عبداللہ بن زبیر کا حمل ٹھہرا ہوا تھا، آگے مذکورہ بالا روایت سنائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے لائے جاتے، آپ ان کے لئے برکت کی دعا کرتے اور انھیں گھٹی دیتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے لائے جاتے، آپصلی اللہ علیہ وسلم انہیں برکت کی دعا دیتے اور انہیں گھٹی دیتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے، کہا: ہم گھٹی دلوانے کے لئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے، ہم نے کھجور حاصل کرنی چاہی تو ہمارے لیے اس کا حصول دشوار ہوگیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، ہم عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، تاکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اسے گھٹی دیں، ہم نے چھوہارے تلاش کیے اور ہمارے لیے ان کی دستیابی مشکل ہو گئی۔
حضرت سہل بن سعد (بن مالک رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے، کہا: کہ ابواسید رضی اللہ عنہ کا بیٹا منذر، جب پیدا ہوا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی ران پر رکھا اور (اس کے والد) ابواسید۔ بیٹھے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز میں اپنے سامنے متوجہ ہوئے تو ابواسید نے حکم دیا تو وہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ران پر سے اٹھا لیا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا تو فرمایا کہ بچہ کہاں ہے؟ سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم نے اس کو اٹھا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا نام کیا ہے؟ ابواسید نے کہا کہ فلاں نام ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس کا نام منذر ہے۔ پھر اس دن سے انہوں نے اس کا نام منذر ہی رکھ دیا۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب منذر بن ابی اسید پیدا ہوئے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا اور ابو اسید رضی اللہ تعالی عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سامنے پڑی ہوئی کسی چیز میں مشغول ہو گئے تو حضرت اسید رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کے بارے میں حکم دیا، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران پر بٹھا لیا گیا اور اسے گھر لوٹا دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مشغولیت سے بیدار ہوئے تو پوچھا "بچہ کہاں ہے؟" تو حضرت ابو اسید رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا، ہم نے اسے واپس بھیج دیا ہے، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے پوچھا ”اس کا نام کیا ہے؟“ اس نے جواب دیا، فلاں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن اس کا نام منذر ہے۔“ تو اسی دن آپ نے اس کا نام منذر رکھا۔