عبد الرحمٰن بن اسود نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دم کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک گھر کے لو گوں کو ہر زہریلے جا نور کے ڈنک سے (شفا کے لیے) دم کرنے کی اجازت عطا فر ما ئی۔
حضرت اسود بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دم کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری گھرانہ کو ہر زہریلی چیز سے دم کی اجازت دی تھی۔
ابرا ہیم نے سود سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک گھر کے لو گوں کو ہر زہریلے ڈنک کے علاج کے لیے دم کرنے کی اجازت دی تھی۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری گھرانے کو زہر سے دم کرنے کی اجازت دی۔
ابو بکر بن ابی شیبہ زہیر بن حرب اور ابن ابی عمرنے۔الفاظ ابن ابی عمر کے ہیں۔کہا: ہمیں سفیان نے عبد ربہ بن سعیدسے حدیث بیان کی، انھوں نے عمرہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ جب کسی انسان کو اپنے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تی یا اسے کوئی پھوڑا نکلتا یا زخم لگتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت مبارک سے اس طرح (کرتے) فرماتے: (یہ بیان کرتے ہو ئے) سفیان نے اپنی شہادت کی انگلی زمین پر لگائی، پھر اسے اٹھا یا: "اللہ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی سے ہم میں سے ایک کے لعاب دہن کے ساتھ ہمارے رب کے اذن سے ہمارا بیمار شفایاب ہو۔"ابن ابی شیبہ نے "ہمارا بیمار شفایاب ہو"کے الفا ظ اور زہیر نے "تا کہ "ہمارا بیمار شفایاب ہو"کے الفاظ کہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی انسان بیمار ہوتا یا اسے پھوڑا پھنسی یا زخم لگتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی اس طرح کرتے، سفیان نے اپنی انگشت شہادت زمین پر رکھ کر اٹھائی، فرماتے: ”ہماری زمین کی مٹی، ہم میں سے کسی کے تھوک کے ساتھ، تاکہ اس کے ذریعے ہمارا مریض، ہمارے رب کی اجازت سے شفا بخشا جائے“ ابن ابی شیبہ نے کہا ”يشفى“
محمد بن بشر نے مسعر سے روایت کی، کہا: ہمیں معبد بن خالد نے ابن شداد سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں حکم دیتے تھے کہ وہ نظر بد سے (شفا کے لیے دم کرالیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نظر لگنے سے دم کرانے کا حکم دیتے تھے۔
سفیان نے معبد بن خالد سے، انھوں نے عبد اللہ بن شداد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم دیتے تھے کہ وہ نظر بد سے دم کرالوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نظر لگنے سے دم کروانے کا حکم دیتے تھے۔
ابو خیثمہ نے عاصم احول سے، انھوں نے یو سف بن عبد اللہ سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دم جھا ڑ کے بارے میں روایت بیان کی، کہا: زہریلے ڈنگ جلد نکلنے والے دانوں اور نظر بد (کے عوارض) میں دم کرانے کی اجا زت دی گئی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ دم کے بارے میں بیان کرتے ہیں، زہریلے ڈنگ، پھوڑے اور نظر لگنے سے دم کی اجازت دی۔
سفیان اور حسن بن صالح دونوں نے عاصم انھوں نے یوسف بن عبد اللہ سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر بد زہریلے ڈنگ جلد نکلنے والے دانوں میں دم کرنے کی اجا زت دی۔ اور سفیا ن کی روایت میں یو سف بن عبد اللہ کے بجائے) یو سف بن عبد اللہ بن حارث (سے مروی) ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر لگنے، زہریلے ڈنگ اور پھوڑے پھنسی سے دم کی اجازت مرحمت فرمائی۔
زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک لڑکی کے بارے میں جس کے چہرے (کے ایک حصے) کا رنگ بدلا ہوا دیکھا فرما یا: "اس کو نظر لگ گئی ہے اس کو دم کراؤ۔"آپ کی مراد اس کے چہرے کی پیلا ہٹ سے تھی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں ایک بچی کے چہرے پر سیاہی یا زردی دیکھ کر فرمایا: ”اسے نظر لگی ہے، اس کو دم کرواؤ“ یعنی اس کا چہرہ زرد تھا۔
ابوعاصم نے ابن جریج سے روایت کی، کہا: مجھے ابو زبیر نے بتا یا کہ انھوں نے حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہو ئے سنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آل (بنو عمروبن) حزم کو سانپ (کے کا ٹے) کا دم کرنے کی اجازت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا: "کیا ہوا ہے میں نے اپنے بھا ئی (حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کے بچوں کے جسم لا غر دیکھ رہا ہوں، کیا انھیں بھوکا رہنا پڑتا ہے؟"انھوں نے کہا: نہیں لیکن انھیں نظر بد جلدی لگ جاتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "انھیں دم کرو۔"انھوں (اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا) نے کہا: تومیں نے (دم کے الفاظ کو) آپ کے سامنے پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: " (ان الفاظ سے) ان کو دم کردو۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حزم کے خاندان کو سانپ سے دم کرانے کی اجازت دی اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا: ”کیا وجہ ہے، میں اپنے بھائی جعفر کے بچوں کو دبلا پتلا دیکھ رہا ہوں، کیا انہیں غذا کی ضرورت ہے۔“ اس نے کہا، نہیں، لیکن انہیں نظر بہت جلد لگ جاتی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں دم کرو۔“ تو میں نے آپ پر دم پیش کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں دم کرو۔“
روح بن عبادہ نے کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابو زبیر نے بتا یا کہ انھوں نے حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہو ئے سنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عمرو (بن حزم) کو سانپ کے ڈسنے کی صورت میں دم کرنے کی اجا زت دی۔ابو زبیر نے کہا: میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے (یہ بھی) سنا، وہ کہتے تھے: ہم میں سے ایک شخص کو بچھو نے ڈنگ مار دیا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہو ئے تھے۔کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں دم کردوں؟آپ نے فرما یا: " تم میں سے جو شخص اپنے بھا ئی کو فا ئدہ پہنچا سکتا ہو تو اسے ایسا کرنا چا ہیے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عمرو کو سانپ کے دم کی اجازت دی اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ہم میں سے ایک آدمی کو بچھو نے ڈسل لیا، جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میں دم کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو وہ پہنچائے۔“
سعید بن یحییٰ اموی کے والد نے کہا: ہمیں ابن جریج نے اسی سند کے ساتھ اسی کی مثل روایت بیان کی مگر انھوں نے کہا: لو گوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا میں اس کو دم کردوں؟اور (صرف): "دم کردوں"نہیں کہا۔
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، اس میں یہ ہے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسول! میں اسے دم کروں، صرف ”میں دم کروں“ نہیں کہا۔
وکیع نے اعمش سے، انھوں نے ابو سفیان سے، انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میرے ایک ماموں تھے وہ بچھوکے کا ٹے پردم کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عمومی طور ہر طرح کے) دم کرنے سے منع فرمایا۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو ئے اور کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے دم کرنے سے منع فرما دیا ہے۔میں بچھو کے کاٹے سے دم کرتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جو کوئی اپنے بھا ئی کو فا ئدہ پہنچا سکتا ہو تو وہ ایسا کرے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میرا ایک ماموں بچھو ڈسنے کا دم کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کرنے سے روک دیا تو وہ آپ کے پاس آ کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے دموں سے منع فرما دیا ہے اور میں بچھو ڈسنے کا کام کرتا ہوں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو بھی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو، پہنچائے۔“
ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے سفیان سے، انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کرنے سے منع فرما دیا تو عمرو بن حزم کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوا اور عرض کی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس دم (کرنے کا ایک کلمہ) تھا۔ہم اس سے بچھو کے ڈسے ہو ئے کو دم کرتے تھے اور آپ نے دم کرنے سے منع فر ما دیا۔انھوں (جا بر رضی اللہ عنہ) نے کہا: تو انھوں نے وہ پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں (اس میں کوئی) حرج نہیں سمجھتا۔تم میں سے جو کوئی اپنے بھا ئی کو فائدہ پہنچاسکتا ہو تو وہ ضرور اسے فائدہ پہنچائے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کرنے سے منع کر دیا تو عمر ابن حزم کے خاندان کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے، اے اللہ کے رسول! واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک دم ہے، جو ہم بچھو کے ڈسنے پر کرتے ہیں، اور آپ نے دم کرنے سے منع کر دیا ہے اور انہوں نے وہ دم آپ پر پیش کیا تو آپ نے فرمایا: ”میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو، نفع پہنچائے۔“