ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ رات کو جگا دیتا پھر صبح نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معمول سے فارغ ہو جاتے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1316]
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا: میں نے ان سے کہا: آپ کس وقت نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: جب آپ مرغ کی بانگ سنتے تو اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور نماز شروع کر دیتے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1317]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں صبح ہوتی تو آپ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سوئے ہوئے ہی ملتے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1318]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/التھجد 7 (1133)، صحیح مسلم/المسافرین 17 (742)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 126 (1197)، (تحفة الأشراف: 17715)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/270) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1133) صحيح مسلم (742)
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی معاملہ پیش آتا تو آپ نماز پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1319]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3375)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/388) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: تاکہ نماز کی برکت سے وہ پریشانی دور ہو جائے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن عبد اللّٰه بن أبي قدامة الدؤلي مجهول (التحرير : 6041) وثقه ابن حبان وحده وفي السند اختلاف وحديث أحمد (4/ 333 ح 18937 وسنده صحيح) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 54
ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزارتا تھا، آپ کو وضو اور حاجت کا پانی لا کر دیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مانگو مجھ سے“، میں نے عرض کیا: میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے علاوہ اور کچھ؟“، میں نے کہا: بس یہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو اپنے واسطے کثرت سے سجدے کر کے (یعنی نماز پڑھ کر) میری مدد کرو“۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1320]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ کا قول ہے «تتجا فى جنوبهم عن المضاجع يدعون ربهم خوفا وطمعا ومما رزقناهم ينفقون»”ان کے پہلو بچھونوں سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو ڈر اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں“(سورۃ السجدۃ: ۱۶) اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان جاگتے اور نماز پڑھتے ہیں۔ حسن کہتے ہیں: اس سے مراد تہجد پڑھنا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1321]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف: 1212)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن 33 (3196) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة وسعيد بن أبي عروبة مدلسان (تقدما : 29،33) وعنعنا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 55
انس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «كانوا قليلا من الليل ما يهجعون»”وہ رات کو بہت تھوڑا سویا کرتے تھے“(سورۃ الذاریات: ۱۷) کے بارے میں روایت ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے تھے۔ یحییٰ کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ «تتجافى جنوبهم» سے بھی یہی مراد ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1322]