الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
62. باب فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْمُسْلِمِ يَمُوتُ فِي بِلاَدِ الشِّرْكِ
62. باب: جو مسلمان مشرکین کے علاقے میں فوت ہو جائے۔
حدیث نمبر: 3204
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَعَى لِلنَّاسِ النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى، فَصَفَّ بِهِمْ، وَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (حبشہ کا بادشاہ) نجاشی ۱؎ جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی اطلاع مسلمانوں کو دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے، ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز (جنازہ) پڑھی ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3204]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز60 (1334)، ومناقب الأنصار 38 (3880)، صحیح مسلم/الجنائز 22 (951)، سنن النسائی/الجنائز 72 (1973)، (تحفة الأشراف: 13232)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الجنائز 5 (14)، مسند احمد (2/438، 439) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: وضاحت ۱؎: نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہے، ان کا نام اصحمہ تھا، یہ پہلے نصاری کے دین پر تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جو صحابہ کرام ہجرت کر کے حبشہ گئے ان کی خوب خدمت کی جب وہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ جا کر صحابہ کرام کے ساتھ ان کی نماز جنازہ پڑھی چونکہ ان کا انتقال حبشہ میں ہوا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی تھی اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے۔
۲؎: نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہو گیا، الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول ابن تیمیہ، ابن قیم اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا ہے، عام مسلمانوں کا غائبانہ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، اور نہ ہی تعامل امت سے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1245) صحيح مسلم (951)

حدیث نمبر: 3205
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَنْطَلِقَ إِلَى أَرْضِ النَّجَاشِيِّ، فَذَكَرَ حَدِيثَهُ، قَالَ النَّجَاشِيُّ: أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَلَوْلَا مَا أَنَا فِيهِ مِنَ الْمُلْكِ، لَأَتَيْتُهُ حَتَّى أَحْمِلَ نَعْلَيْهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب کفار نے سخت ایذائیں پہنچائیں تو) ہمیں نجاشی کے ملک میں چلے جانے کا حکم دیا، نجاشی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور وہ وہی شخص ہیں جن کے آنے کی بشارت عیسیٰ بن مریم نے دی ہے اور اگر میں سلطنت کے انتظام اور اس کی ذمہ داریوں میں پھنسا ہوا نہ ہوتا تو ان کے پاس آتا یہاں تک کہ میں ان کی جوتیاں اٹھاتا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3205]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9117) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ أبو إسحاق عنعن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 118