عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «واللاتي يأتين الفاحشة من نسائكم فاستشهدوا عليهن أربعة منكم فإن شهدوا فأمسكوهن في البيوت حتى يتوفاهن الموت أو يجعل الله لهن سبيلا»”تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکال دے“(سورۃ النساء: ۱۵) اور مرد کا ذکر عورت کے بعد کیا، پھر ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا فرمایا: «واللذان يأتيانها منكم فآذوهما فإن تابا وأصلحا فأعرضوا عنهما»”تم میں دونوں جو ایسا کر لیں انہیں ایذا دو اور اگر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے منہ پھیر لو“(سورۃ النساء: ۱۶)، پھر یہ «جَلْد» والی آیت «الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلدة»”زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کو سو سو کوڑے مارو“(سورۃ النور: ۲) منسوخ کر دی گئی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4413]
مجاہد کہتے ہیں کہ «سبیل» سے مراد حد ہے۔ سفیان کہتے ہیں: «فآذوهما» سے مراد کنوارا مرد اور کنواری عورت ہے، اور «فأمسكوهن في البيوت» سے مراد غیر کنواری عورتیں ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4414]
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے راہ نکال دی ہے غیر کنوارہ مرد غیر کنواری عورت کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے اور رجم ہے اور کنوارا مرد کنواری عورت کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4415]
اس طریق سے بھی حسن سے یحییٰ والی سند ہی سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے (جب غیر کنوارا مرد غیر کنواری عورت کے ساتھ زنا کرے تو) سو کوڑے اور رجم ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4416]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5083) (صحیح)»
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے کہ کچھ لوگوں نے سعد بن عبادہ سے کہا: اے ابوثابت! حدود نازل ہو چکے ہیں اگر آپ اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائیں تو کیا کریں، انہوں نے کہا: ان دونوں کا کام تلوار سے تمام کر دوں گا، کیا میں چار گواہ جمع کرنے جاؤں گا تب تک تو وہ اپنا کام پورا کر چکے گا، چنانچہ وہ چلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے ابوثابت کو نہیں سنا وہ ایسا ایسا کہہ رہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ازروئے گواہ تلوار ہی کافی ہے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، نہیں، اسے قتل مت کرنا کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ غصہ ور، اور غیرت مند پیچھے پڑ کر (بغیر اس کی تحقیق کئے کہ اس سے زنا سرزد ہوا ہے یا نہیں محض گمان ہی پر) اسے قتل نہ کر ڈالیں“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کا ابتدائی حصہ وکیع نے فضل بن دلہم سے، فضل نے حسن سے، حسن نے قبیصہ بن حریث سے، قبیصہ نے سلمہ بن محبق سے سلمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے، یہ سند جس کا ذکر وکیع نے کیا ہے ابن محبق والی روایت کی سند ہے جس میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے مجامعت کر لی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: فضل بن دلہم حافظ حدیث نہیں تھے، وہ واسط میں ایک قصاب تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4417]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/476) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ابن ماجه (2606)¤ الفضل بن دلھم : لين¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 156
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اس میں آپ نے کہا: اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی، تو جو آیتیں آپ پر نازل ہوئیں ان میں آیت رجم بھی ہے، ہم نے اسے پڑھا، اور یاد رکھا، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر زیادہ عرصہ گزر جائے تو کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ ہم اللہ کی کتاب میں آیت رجم نہیں پاتے، تو وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے چھوڑ کر گمراہ ہو جائے، لہٰذا مردوں اور عورتوں میں سے جو زنا کرے اسے رجم (سنگسار) کرنا برحق ہے، جب وہ شادی شدہ ہو اور دلیل قائم ہو چکی ہو، یا حمل ہو جائے یا اعتراف کرے، اور قسم اللہ کی اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں زیادتی کی ہے تو میں اسے یعنی آیت رجم کو مصحف میں لکھ دیتا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4418]