رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا ظہیر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے جو ہمارے لیے مفید تھا منع فرمایا، رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ، تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے وہی حق ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم اپنے کھیتوں کو کیا کرتے ہو“؟ تو ہم نے عرض کیا: ہم اسے تہائی اور چوتھائی پیداوار پر اور گیہوں یا جو کے چند وسق پر کرائے پر دیتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، تم یا تو خود اس میں کھیتی کرو یا دوسرے کو کھیتی کرنے دو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2459]
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی کو زمین کی حاجت نہیں ہوتی تھی تو اسے تہائی یا چوتھائی یا آدھے کی بٹائی پردے دیتا، اور تین شرطیں لگاتا کہ نالیوں کے قریب والی زمین کی پیداوار، صفائی کے بعد بالیوں میں بچ جانے والا غلہ اور فصل ربیع کے پانی سے جو پیداوار ہو گی وہ میں لوں گا، اس وقت لوگوں کی گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، وہ ان میں پھاؤڑے سے اور ان طریقوں سے جن سے اللہ چاہتا محنت کرتا اور اس سے فائدہ حاصل کرتا، آخر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک کام سے جو تمہارے لیے مفید تھا منع فرما دیا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں زمین کو کرایہ پر دینے سے منع کرتے ہیں، اور فرماتے ہیں: ”جس کو اپنی زمین کی ضرورت نہ ہو وہ اسے اپنے بھائی کو مفت (بطور عطیہ) دیدے، یا اسے خالی پڑی رہنے دے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2460]
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو بخشے، اللہ کی قسم! یہ حدیث میں ان سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو شخص آئے، ان دونوں میں لڑائی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہارا یہی حال ہے تو کھیتوں کو کرائے پہ نہ دیا کرو“، رافع رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا ہی سنا کہ کھیتوں کو کرائے پر نہ دیا کرو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2461]