عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب انہوں نے سنا کہ لوگ زمین کو کرائیے پر دینے کے سلسلے میں کثرت سے گفتگو کر رہے ہیں، تو «سبحان اللہ» کہہ کر تعجب کا اظہار کیا، اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یوں فرمایا تھا: ”تم میں سے کسی نے اپنے بھائی کو زمین مفت کیوں نہیں دے دی“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2456]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنی زمین اپنے بھائی کو مفت دے تو یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ اس سے اتنی اور اتنی“ یعنی کوئی متعین رقم لے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہی «حقل» ہے، اور انصار کی زبان میں اس کو محاقلہ کہتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2457]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 21 1550)، (تحفة الأشراف: 5718)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/313) (صحیح)»
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم زمین کو اس شرط پر کرایہ پر دیتے تھے کہ فلاں جگہ کی پیداوار میری ہو گی، اور فلاں جگہ کی تمہاری، تو ہم کو پیداوار پر زمین کرائے پر دینے سے منع کر دیا گیا، البتہ چاندی کے بدلے یعنی نقد کرائے پر دینے سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2458]
وضاحت: ۱؎: اس قسم کی شرط بٹائی کی زمین میں درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں اس بات کا خطرہ ہے کہ کسی قطعہ زمین کی پیداوار خوب ہوا، اور دوسرے قطعہ میں کچھ پیدا نہ ہو، دراصل اسی قسم کی بٹائی سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، صحابی رسول رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے اس سے مطلق بٹائی کی ممانعت سمجھ لی۔