الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
26. باب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ
26. باب: حضر (اقامت کی حالت) میں دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 187
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ ". قَالَ: فَقِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا أَرَادَ بِذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، رَوَاهُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيُّ، وقد روي عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ هَذَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بارش ۱؎ کے مدینے میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ۲؎۔ ابن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے کیا منشأ تھی؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشأ یہ تھی کہ آپ اپنی امت کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۲- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، ابن عباس رضی الله عنہما سے اس کے خلاف بھی مرفوعاً مروی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 187]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 12 (543)، (بدون قولہ ”فی غیر خوف ولا مطر“)، صحیح مسلم/المسافرین 6 (705، 706)، (وعندہ في روایة ”ولاسفر“)، سنن ابی داود/ الصلاة 274 (1210، 1211)، سنن النسائی/المواقیت 44 (590)، (تحفة الأشراف: 5474)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 1 (4)، مسند احمد (1/221، 223، 283) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ابوداؤد کی روایت میں «في غير خوف ولا سفر» ہے، نیز مسلم کی ایک روایت میں بھی ایسا ہی ہے، خوف، سفر اور مطر (بارش) تینوں کا ذکر ایک ساتھ کسی روایت میں نہیں ہے مشہور «من غير خوف ولا سفر» ہے۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا بوقت ضرورت حالت قیام میں بھی جائز ہے، لیکن اسے عادت نہیں بنا لینی چاہیئے۔
۳؎: جسے امام ترمذی آگے نقل کر رہے ہیں، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے، اس لیے دونوں حدیثوں میں تعارض ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اور نہ اس حدیث سے استدلال جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (579 / 1) ، صحيح أبي داود (1096)

حدیث نمبر: 188
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتَى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى , وَحَنَشٌ هَذَا هُوَ أَبُو عَلِيٍّ الرَّحَبِيُّ , وَهُوَ حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ وَغَيْرُهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ إِلَّا فِي السَّفَرِ أَوْ بِعَرَفَةَ، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ لِلْمَرِيضِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْمَطَرِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بغیر عذر کے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں سے میں ایک دروازے میں داخل ہوا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- حنش ہی ابوعلی رحبی ہیں اور وہی حسین بن قیس بھی ہے۔ یہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہے، احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے،
۲- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سفر یا عرفہ کے سوا دو نمازیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں،
۳- تابعین میں سے بعض اہل علم نے مریض کو دو نمازیں ایک ساتھ جمع کرنے کی رخصت دی ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بارش کے سبب بھی دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔ شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ البتہ شافعی مریض کے لیے دو نمازیں ایک ساتھ جمع کرنے کو درست قرار نہیں دیتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 188]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6025) (ضعیف جداً) (سند میں حسین بن قیس المعروف بہ حنش ضعیف بلکہ متروک ہے)»

وضاحت: ۱؎: سفر میں دو نمازوں کے درمیان جمع کرنے کو ناجائز ہونے پر احناف نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ روایت حد درجہ ضعیف ہے قطعاً استدلال کے قابل نہیں، اس کے برعکس سفر میں جمع بین الصلاتین کی جو احادیث دلالت کرتی ہیں، وہ صحیح ہیں ان کی تخریج مسلم وغیرہ نے کی ہے اور اگر بالفرض یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو عذر سے مراد سفر ہی تو ہے، نیز دوسرے عذر بھی ہو سکتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، التعليق الرغيب (1 / 198) ، الضعيفة (4581) ، // ضعيف الجامع - بترتيبى - برقم (5546) //

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جداً ¤ حوش هو حسين بن قيس الواسطي وهو متروك (تق:1342)